شمال مغربی سرحد کی تصفیہ طلب صورتِ حال اور برطانوی حکومت کی جنگ عظیم اوّل کے دوران میں حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے تشویش کو اس تناظر میں باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک میں موجود بہترین افواج کو پہلے ہی انڈیا سے باہر محاذوں پر بھیج دیا گیا تھا۔ بیرونی صورتِ حال اور اُس میں برطانیہ کے کردار کو سمجھے بغیر سوات کی پوزیشن، واقعات اور حالات میں تغیّرات کو ان کے حقیقی جغرافیائی، سیاسی اور تذویراتی سیاق و سباق میں نہیں سمجھا جاسکتا۔
نوابِ دیر کے خلاف سوات میں ہونے والی بغاوت، ریاست کا قیام، عبدالجبارشاہ کا تقرر اور اُس کے نتیجہ میں پیش آنے والے واقعات جنگِ عظیم اوّل کے دوران میں ہی پیش آئے۔ ترکی جرمن اتحاد کا حصہ بن کر نومبر 1914ء کو جنگ میں شامل ہوا۔ ’’ترکی کی شمولیت کی وجہ سے بڑی تبدیلی آئی اور اس قسم کی افواہیں ہر طرف پھیل گئیں کہ قیصر بلکہ پوری جرمن قوم نے اسلام قبول کرلیاہے اور یہ کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ظہور ہوا ہی چاہتا ہے۔‘‘ اس سے مذہبی رہنماؤں کو زبردست تحریک ملی کہ وہ لوگوں کو جہاد پر ابھار سکیں۔
’’برطانوی حکومت کے لیے اندرونی صورتِ حال اس وجہ سے اور بھی خطرناک ہوگئی تھی کہ حریت پسندوں نے مسلح کارروائیوں سے بنگال، مغربی ہندوستان اور پنجاب میں حالات کو خاصا مخدوش کردیا تھا۔ انہیں مسلمانوں کی طرف سے خصوصاً یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں وہ تر کی کے ملت اسلامیہ کے پروپیگنڈے اور فرنٹیئر میں بغاوت کی ہوائیں چلنے سے حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔ ‘‘
چوں کہ زیادہ تر افواج جنگ میں شرکت کے لیے برصغیر سے جاچکی تھیں اور مزید قبائلی سازشیں برطانوی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرسکتی تھیں، اس لیے اُس وقت کی صورتِ حال کو احاطۂ تحریر میں لاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’امیر افغانستان کی جانب سے غیر جانبدار بننے کا اعلان اور ترکی کی اس میں شرکت کو جنگ جویانہ حماقت کہہ کر اُس کی مذمت بہت ہی بیش بہا بات ہے، تاہم اب بھی قبائلی علاقوں کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔‘‘ اس وجہ سے برطانوی حکومت کے لیے سوات کے حالات و واقعات انتہائی حساس نوعیت کی چیز تھے۔
1915ء میں برطانوی مقبوضہ علاقہ میں کئی بار مذہبی رہنماؤں کی مسلسل جہاد کی ترغیب دینے پر حملے ہوئے۔ حاجی صاحب آف ترنگزئی نے سوات اور بونیر میں ’’اسلام خطرے میں ہے‘ ‘ کا نعرہ لگایا جب کہ سوات اور بونیر کے ’’سارے مولوی حضرات مسلسل لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکا رہے تھے اور جوش دلارہے تھے کہ برطانیہ کے پاس اب مزید فوج نہیں رہی۔ یہ کہ جرمنی جنگ جیت رہا ہے۔ یہ کہ ترکی افغانستان میں داخل ہوچکا ہے۔ اور یہ کہ بالآخر وہ دن آپہنچاہے۔‘ ‘
جولائی 1915ء میں کچنر (Kichener) کی طرف سے مزید باقاعدہ برطانوی فوج کے مطالبہ کو یہ کہہ کر رد کردیا گیاکہ ’’اب صرف آٹھ انگریز بٹالین فوج رہ گئی ہے جو کہ ساری کی ساری سرحد میں متعین ہے۔ ہارڈنگ کے الفاظ میں سرحد کی صورتِ حال کے ساتھ مذاق نہیں کیا جا سکتا جہاں کہ امن کے نغمہ کو جنگ کا ترانہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔‘‘ شمال مغربی سرحد میں قیامِ امن اس لیے بھی زیادہ مشکل مسئلہ بن گیا تھا کہ ہندوستان اور باہر سے برطانیہ مخالف سارے عناصر یہاں اکٹھے ہوگئے تھے، جیسے کہ ہندوستانی مجاہدین، ترک حکومت کے نمائندے اور حاجی صاحب آف ترنگزئی۔ اس طرح یہ علاقہ اُن کے لیے صرف ایک دوسرے سے ملاقات کی جگہ نہیں تھی بلکہ وہ یہیں سے اپنی کارروائیاں بھی کرتے تھے۔
سوات میں صورتِ حال زیادہ مخدوش اس وجہ سے تھی کہ یہاں سرتور فقیر اور سنڈاکئی بابا اپنے اثر و رسوخ کے ساتھ موجود تھے۔ سرتور فقیر 1897ء کی بغاوت کا ہیرو تھا۔ حالاں کہ اس کے بعد اُسے اپنے مقصد میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی، لیکن اب بھی وہ سرگرم تھا۔ اور سنڈاکئی بابا ’’جو اس سے پہلے انگریز حکومت کے لیے کبھی کوئی خطرہ نہیں بنے اور جو کئی بار پولی ٹیکل ایجنٹ کواس بات کی یقین دھانی کراچکے تھے کہ وہ کبھی بھی انگریز سرکار کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کریں گے۔‘‘ لیکن جب اگست 1915ء میں برطانوی حکومت نے سواتیوں کو ادین زئی سے دور رہنے کے لیے کہا اس کے بعد سے وہ انگریزوں کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔ حالاں کہ وہ دونوں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے، لیکن وہ اس منزل کی تلاش میں سرگرم ضرور رہے۔ وہ تمام برطانیہ مخالف عناصر سے رابطہ میں رہے جوکہ باجوڑ اور بونیر میں موجود تھے۔ سرتور فقیر کا جنوری 1917ء میں 90سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اُس کی وفات پر برطانوی سرکاری تبصرہ کے الفاظ یوں ہیں: ’’اس کی موت سے ملاکنڈ ایجنسی کے امن کو لگا ہوا مسلسل خطرہ ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اپنی زندگی کے آخری 20 سال اُس کے ذہن پہ کافروں سے جنگ کا خبط سوار رہا۔ اس دوران میں حالات کو خراب کرنے کا کوئی موقع اُس نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگست 1915ء میں سرکاری افواج پر حملہ آور لشکر کے ساتھ تھا۔ اس کی موت سے ایجنسی اس خطرہ سے پاک ہوگئی ہے۔‘‘
تاہم سنڈاکئی بابا تمام برطانیہ مخالف عناصر کے ساتھ مل کر جہاد کی ترغیب و تلقین کے کام میں مصروف رہا۔ عبدالجبارشاہ نے خود پولی ٹیکل ایجنٹ کو اطلاع دی کہ دو ترک ایلچی سوات بالا میں اُس کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح دو اورایلچی ہندوستانی شدت پسندوں کے ساتھ بونیر (سمستہ) میں مقیم ہیں۔ یہ آخری انہیں بڑے بم بنانے کے طریقے سکھارہے تھے اور یہ کہ اس کے بعد وہ سوات جانے والے ہیں۔سنڈاکئی بابا نے ان ایلچیوں اور ہندوستانی مجاہدین کے ہمراہ سوات بالا کا دورہ کیا اور پورن چکیسر اور کوہستان کے جرگوں کو خطوط کے ذریعے اس بات کی ترغیب دی کہ ’’جب سوات کے لوگ شموزئی اور ادینزئی نواب سے واپس لینے کے لیے جنگ شروع کریں، تو وہ لوگ آکر اس کی مدد کریں، تاکہ وہ مل کر انگریز حکومت پر حملہ کریں، اس لیے کہ سواتی تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
برطانوی حکومت نے نجی طور پر سوات کے بارسوخ افراد کو پیغامات بھیجے کہ اگر وہ ادین زئی آئیں، تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ سنڈاکئی بابا حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرسکے۔ پولی ٹیکل ایجنٹ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سنڈاکئی بابا کو نیک پی خیل علاقہ سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مجاہدین اور دیگر برطانیہ مخالف عناصر کے دورے جاری رہے۔ باجوڑ ملا اور حاجی صاحب آف ترنگزئی نے سنڈاکئی بابا کو پانچ شیخوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ کسی بھی وقت جہاد کے لیے اُس کی مدد کو تیار ہیں۔ سنڈاکئی بابا نے ان کو مجاہدین کے پاس بونیر بھیج دیا۔ جولائی 1917ء کو مولوی تاج محمدنے کابل سے ایک بڑی رقم لاکر ’’باجوڑ، سوات اور اباسین کی وادی کے قبائل کو تیار کرنے کی کوشش کی۔‘‘ ’’پروویژنل گورنمنٹ آف انڈیا‘‘ کے ارکان نے امیر افغانستان کو برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے کی ترغیب دی۔ وہ لوگ کابل سے حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے اور وہ سوات میں سنڈاکئی بابا کے ساتھ رابطہ بنائے ہوئے تھے۔ افغانستان میں موجود برطانیہ مخالف عناصر ترک نمائندوں پر تکیہ کیے ہوئے تھے کہ وہ قبائل سے روابط کریں گے۔ ان کے اقدامات کو نصراللہ خان کی مالی امداد حاصل تھی۔
’’جرمن مشن‘‘ اور ’’ترک مشن‘‘ نے افغانستان کے دورے کیے۔ روس میں ابھی کمیونسٹ انقلاب تو نہیں آیا تھا، لیکن 1917ء میں اُس کی ابتدائی ہلچل محسوس ہونے لگی تھی۔ اس خبر سے برطانیہ مخالف عناصر اور قبائلی علاقہ میں ایک نئی قوت محسوس ہونے لگی۔
اکتوبر 1915ء میں جب میاں گل برادران کو سوات سے تقریباً بے دخل کردیا گیا اور وہ بالکل پس منظر میں چلے گئے، تو اس پر اُس وقت کے پولی ٹیکل ایجنٹ نے ایک بہت ہی دلچسپ تجزیہ لکھا۔ اس سے آنے والے دنوں میں سوات کی سیاسی صورتِ حال اور ستمبر 1917ء میں عبدالجبار شاہ کے زوال پر بھی اچھی روشنی پڑتی ہے۔ اس سے میاں گل برادران، عبدالجبار شاہ اور سنڈاکئی بابا کے بارے میں انگریزوں کے نقطۂ نظر کا پتا چلتا ہے۔ یہ برطانوی حکومت کے خدشات کے بارے میں بھی بتاتا ہے اور اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ سوات میں حکمران کی اس تبدیلی کے عوامل میں برطانوی عنصر کو کسی طورنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پولی ٹیکل ایجنٹ نے صورتِ حال کا اس طرح تجزیہ کیا: ’’سوات میں فی الوقت (جولائی 1915ء) وہاں کا نیا بادشاہ، عبدالجبار شاہ، سنڈاکئی بابا کی مدد سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ وہ دریا کے دونوں کناروں کے قبائل پر اپنی حکومت قائم کرنے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے۔ دریا کے بائیں جانب اُس کے اصل حریف میاں گل برادران تھے جو مشہور اخوند آف سوات کے پوتے ہیں۔ جولائی (1915ء)میں ان کی جانب سے بائیں کنارے کے لوگوں پر اپنی حکومت قائم کرنے اور ان سے بزور ٹیکس وصولی کی کوشش نے لوگوں کو ان کے خلاف کردیا۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نئے بادشاہ نے دائیں کنارے سے ایک لشکر بھیج کر میاں گل برادران کو یہاں ان کی مقتدر حیثیت سے محروم کردیا جوکہ ابھی تک انہیں اس جانب حاصل تھی۔ میاں گل برادران کے اقتدار کا اس طرح گہنا جانا اور ان کی جگہ ایک اجنبی کا مقتدر ہوجانا ہماری حکومت کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ اس لیے کہ میاں گل برادران ہمیشہ امن وامان اور ضابطہ و قانون کی حمایت کرتے رہے ہیں اور (انگریز) حکومت سے ان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ سوات میں 1849ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔جیسے اُس وقت ایک برائے نام بادشاہ کو تخت پر بٹھا دیا گیا تھا لیکن حقیقت میں اختیارات اخوند آف سوات کے ہاتھ میں تھے۔ اس طرح اب عبدالجبار شاہ کو برائے نام بادشاہ بنا لیا گیا ہے لیکن اختیار سنڈاکئی بابا کے ہاتھ میں ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اخوند ایک مقامی شخص تھا اور یہاں سے اُس کا مفاد وابستہ تھا۔ پھر یہ کہ وہ اعتدال پسند تھا اور ہمیشہ حکومت کے جائز مطالبات ماننے کے لئے تیار رہتا تھا جب کہ سنڈاکئی ملا ایک اجنبی ہے جس کا یہاں سے کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ پھر یہ کہ وہ حکومت کا کھلم کھلا دشمن ہے اور جوکہ اس وقت اپنی پوری طاقت کے ساتھ دیگر مذہبی رہنماؤں کی مدد سے سارے قبائل کو جمع کرکے جہاد کا اعلان کرنا چاہتا ہے۔ میاں گل برادران کے زوال اور سید عبدالجبار شاہ کی برائے نام حکومت کی شکل میں دراصل سنڈاکئی ملا کی پورے سوات پر دریا کے دونوں جانب حکومت قائم ہوگئی ہے۔‘‘ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 75 تا 78 سے انتخاب)