نواب کی فوجوں کو سوات بالا سے نکال باہر کرکے ریاست سوات کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن نواب اس علاقہ کے ہاتھ سے نکل جانے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے والا نہیں تھا لیکن اُس کی پوزیشن دیر میں موجود بے چینی اور باجوڑ کی طرف سے اُس کی حکومت کی مخالفت کی وجہ سے غیر محفوظ تھی۔ اُسے اپنے خلاف ہونے والی ایک سازش کا قبل از وقت پتا چلا۔ اس میں خان آف باڑوہ (سید احمد خان)، اُس کا سوتیلا بھائی (محمدعیسیٰ خان)، بانڈئی میدان کا سردار خان، سیند علاقہ کے کچھ خوانین اور عبدالجبار شاہ شامل تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ سب بیک وقت اُس پر حملہ کر دیں۔ اُس وقت تو نواب اپنے تحفظ کے مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ جیسے ہی اُس کی پوزیشن مضبوط ہوگی، وہ سوات میں پھر قسمت آزمائی کرے گا۔ اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لئے اُس نے اپنی بیوی کو پائندہ خیل اور سلطان خیل قبائل کے پاس بھیجا تاکہ اُن کو مفاہمت پر راضی کیا جاسکے۔ برطانوی حکومت نے نواب کے مسائل حل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کو خدشہ تھا کہ "اگر دیر کے نواب کو دیر سے نکال باہر کر دیا گیا، تو دیر کی ریاست طوائف الملوکی کا شکار ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوگیا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ قبائل ایک غیر مذہبی حکومت کے منظر سے ہٹتے ہی سنڈاکئی ملا یا اسی طرح کے اور کسی ملا کی سربراہی میں جہاد پر نکل کھڑے ہوں گے اور سب مل کے چکدرہ میں موجود انگریز فوج پر حملہ کر دیں گے اور اگر ممکن ہوا، تو ملاکنڈ پر بھی چڑھ دوڑیں گے۔”
دوسری جانب عبدالجبار شاہ اور سواتیوں نے سوات زیریں میں واقع ادین زئ علاقہ پر اپنے دعویٰ کو جاری رکھا جو کہ نواب کے قبضہ میں تھا۔ انہیں اس بات کا خوف بھی دامن گیر تھا کہ نواب کہیں سوات بالا پر حملہ نہ کر دے۔ اس لیے وہ سنڈاکئی بابا کی مدد کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ قبائل کی نظر میں اور کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جس کی قیادت میں وہ متحد ہوکر نواب کا مقابلہ کرسکیں۔ ان کا نام نہاد بادشاہ تو "تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔” جہاں تک عبدالجبار شاہ کا تعلق ہے تو "اُس کے لیے تو سنڈاکئی بابا سب سے بڑا سہارا تھا۔”
عبدالجبار شاہ نے تزویراتی اہمیت کے حامل دروں پر قلعے تعمیر کرکے نواب کے خلاف اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اُس نے ایک بار پھر سوات کے چیدہ چیدہ نمائندہ لوگوں کو بلا کر اُن سے کہا کہ وہ صاف صاف الفاظ میں انہیں بتائیں کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ وہ سوات میں رہیں اور نواب کے خلاف اس جنگ میں ان کی قیادت کریں۔ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں، تو کیا وہ قسم کھا کر اُن کا ساتھ دینے کا عہد کریں گے؟ اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، تو ٹھیک ہے پھر وہ یہاں رک کر ان کی رہنمائی کریں گے اور اگر اسے اس کی یقین دھانی نہیں کرائی جاتی، تو وہ یہاں سے جانے کے لیے تیاری کرے۔ سب قبائل نے متفقہ طور پر اُس کی وفاداری کا عہد کیا۔ بلکہ عزی خیل اور جِنکی خیل قبائل نے بھی سوات کے لیے جنگ میں اُس کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا، جو ابھی تک اُسے عشر دینے پر تیار نہیں تھے۔
تقریباً ایک سال تک نوابِ دیر انگریز سرکار کی مدد سے اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں لگا رہا۔ مارچ 1916ء میں عبدالجبار شاہ نے ادین زئی علاقہ پر حملہ کرکے اسے شوا تک اپنے قبضہ میں لے لیا۔ مارچ کے آخر تک نواب نے فیصلہ کیا کہ اب سوات کو دوبارہ فتح کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میاں گل برادران نے بھی اپنا پورا وزن اُس کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اور 30 مارچ 1916ء کو وہ ادین زئ پر چڑھ دوڑا۔ اس موقع پر برطانوی حکومت ایک طرف ہوگئی، تاکہ وہ اپنی جنگ خود لڑسکے۔ نواب نے شوا کے مقام پر ہونے والی دو روزہ جنگ میں سواتیوں کو شکست دی اور وہ اپنے بادشاہ کے ساتھ سوات بالا کی طرف دھکیل دیے گئے اور شموزئی تک کا علاقہ پھر نواب دیر کے قبضہ میں آگیا۔ اُس کے لشکر نے پیش قدمی کی اور نیک پی خیل میں گالوچ اور دیولئی کے مقامات پر غیر مربوط سی جنگیں ہوئیں۔ نواب نے مقامی لوگوں میں اپنا ایک حامی گروہ بنانے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا اور اُس کی افواج شکست کھا کر شموزئی اور ادین زئی کی طرف پسپا کردی گئیں۔
صوبہ کی خفیہ ڈائری (سیاسی) سے پتا چلتا ہے کہ عبدالجبار شاہ نے سوات کے لشکر کو اپنی اس فتح کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پیش قدمی جاری رکھ کر نواب کو سوات زیریں کی سرزمین سے بھی نکال باہر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ تاہم اُس وقت کی انتظامیہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دراصل برطانوی حکومت نے انہیں مزید پیش قدمی سے روک دیا۔ دوسرے سال کچھ زیادہ اہم جھڑپیں نہیں ہوئیں۔ نواب سوات میں اپنا کوئی حامی گروہ بنانے کی تگ ودو کرتا رہا، جب کہ عبدالجبار شاہ اور سواتی قبائل اندرونی سیاسی مسائل میں الجھے رہے۔ سنڈاکئی بابا تو مختلف قسم کے تنازعات کو حل کرنے میں مصروف رہے، یا حاجی صاحب ترنگزئی، ہندوستانی مجاہدین اور ترک ایلچیوں کے ساتھ رابطوں میں لگے رہے، تاکہ لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا جا سکے۔
مئی 1917ء میں شموزئی کے مقام پر دوبارہ دونوں حریفوں میں پنجہ آزمائی شروع ہوئی۔ عبدالجبار شاہ کے خلاف سواتیوں میں پیدا ہونے والی ممکنہ بے اطمینانی اور پھوٹ کو محسوس کرتے ہوئے اس با ر میاں گل برادران نے سواتیوں کا ساتھ دیا، تاکہ اُن کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنا سکیں۔ جنگ چھڑنے سے پہلے امن کے معاہدہ کے لیے سوات کی طرف سے عبدالودود اور دیر کی جانب سے اخونزادہ حضرت سید کے درمیان ہونے والی بات چیت ناکام ہوگئی۔ دونوں فوجیں ایک مہینے تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ٹھہری رہیں، لیکن خوراک کی کمی کی وجہ سے 20 جون 1917ء کو واپس اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئیں۔ عبدالجبار شاہ کے عہد کے بقیہ حصہ میں دونوں فریق جنگ سے باز رہے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 71 تا 73 سے انتخاب)