خیبر پختون خوا کے دوسرے بڑے ضلع ’’سوات‘‘ کو اگر پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ کہاجائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ اس ضلع سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی ماضی میں انتخاب لڑا تھا۔ یہاں کے لوگوں نے نوجوان لیڈر مراد سعیدکو ہر بار دل کھول کر ووٹ دیا ہے۔ اہلِ سوات نے پی ٹی آئی کے نئے چہروں کوایوانوں تک پہنچایا ہے۔ یہاں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اہلِ سوات نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا نہ کہ شخصیات کو۔
قارئین، 14 اکتوبر 2018ء کو پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات میں اپنی دو نشستیں کھو دیں۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اس کی دو بڑی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی، پی ٹی آئی میں اختلافات تھے۔ دوسری یہ کہ ان کے خلاف چھے فریقی سیاسی اتحاد میدانِ عمل میں تھا، مگر میں اعداد و شمار کی روشنی میں بتانے جا رہا ہوں کہ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔
25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی کے 3 سے ڈاکٹر حیدر نے انتخاب جیتا۔ انہوں نے اٹھارا ہزارچار سو ستّر ووٹ لیا۔ اُس نشست پر دوسرے نمبر پر پی ایم ایل این کے سردار احمدنے بارہ ہزار نوسو بیس ووٹ لیا۔ اس طرح اس حلقے میں کل تین ہزار دوسو پینسٹھ ووٹ کینسل بھی ہوا۔ اب ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کا امیدوار جوکہ ڈاکٹر حیدر کا بھتیجا بھی ہے، نے پندرہ ہزار چھے سو چھیانوے ووٹ لے لیا جب کہ ان کے مدمقابل سردار احمدنے سولہ ہزار آٹھ سو ساٹھ۔ اگر ان ووٹوں کا فرق دیکھ لیاجائے، تو یہ کچھ اتنا زیادہ نہیں۔ اس الیکشن میں صرف 920 ووٹ کینسل ہوا ہے۔ اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے ایک امیدوار محمد زیب خان نے تقریباً ڈھائی ہزار ووٹ لیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف پر لوگوں کا اعتمام نہیں رہا۔
قارئین، اس طرح اگر پی کے 7 کاجائزہ لیاجائے، تو اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اسی حلقے سے 25 جولائی کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امجد علی نے اُنیس ہزار چار سوساٹھ ووٹ لیا تھا جب کہ دوسرے نمبر پر اے این پی کے وقار خان نے تیرہ ہزار چھے سوپینتیس ووٹ حاصل کیا تھا۔ اس طرح اس حلقے میں دو ہزار ایک سو نوے ووٹ کینسل بھی کیا گیا تھا۔ اب ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فضل مولا نے تیرہ ہزار چھے سو تریاسٹھ ووٹ لیا ہے جب کہ ان کے مدمقابل متحدہ اپوزیشن کے امیدوار وقار خان نے تیرہ ہزار نو سو ستانوے۔ گویا وقارخان نے اپنے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں صرف 362 ووٹ زیادہ لیا ہے، جب کہ پی ٹی آئی نے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں پانچ ہزار سات سو ستانوے ووٹ کم لیا ہے۔ اگر اس ووٹ میں ان کے ناراض رکن سعید خان کا اُنیس سو ووٹ بھی شامل کیاجائے، تو پھر بھی پاکستان تحریک انصاف نے اُس علاقے جہاں سے مراد سعید نے ریکارڈ ووٹ لیا تھا، اپنے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں چار ہزار کے قریب کم ووٹ لیا ہے۔ اس طرح اس حلقے میں پچھلے انتخابات کے مقابلے میں کینسل شدہ ووٹوں کی تعدا گیارہ سو سے بھی کم ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صرف پچاس دنوں میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کیوں اتنی کم ہوئی؟ صاف ظاہرہے کہ یا تو پچھلے انتخابات میں اپوزیشن کے بقول ’’بڑی دھاندلی ہوئی تھی‘‘ یا پھر تحریک انصاف سے واقعی لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پچھلے عام انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کیسے کینسل ہوا؟ جب کہ اِس مرتبہ مقابلتاً آدھے سے بھی کم تعداد میں ووٹ کینسل ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو اس بات پرغور کرنا چاہیے۔ سوات کے دونوں حلقوں کے لوگوں کو یہ معلوم تھاکہ مرکز اور صوبے میں برسرِاقتدار پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے۔ اگر وہ اس کو ووٹ دیں گے، تو ان کے علاقے میں زیادہ سے زیاد ترقیاتی کام ہوں گے۔ کیوں کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کے منتخب نمائندوں کو وہ فنڈ نہیں دیا جاتا، جو حکومتی ارکان کو دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی شکست کئی سوالوں کو جنم دے چکی ہے۔
اس پر واقعی غور کی ضرورت ہے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔