خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل تدریس کے شعبے میں ملازمت دینے کا الگ طریقہ تھا جس میں سفارش اور رشوت کا کلچر بہت زیادہ تھا۔ اور آج اسی پراسس کا نتیجہ ہے کہ پرائمری اور مڈل لیول پر بعض اساتذۂ کرام تدریس کے معیار پر پورا نہی اترتے۔ ’’پی ٹی آئی‘‘ نے ’’این ٹی ایس‘‘ کے ذریعے ٹیسٹ اور ملازمت کا شفاف طریقہ رائج کیا اور اس کے نتیجے میں نہایت قابل اساتذۂ کرام بھرتی ہوئے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ ’’پی ٹی آئی‘‘ ہی کو جاتا ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے 15-2014ء اور 16 عیسوی میں انتہائی سرعت کے ساتھ ان پوسٹوں پر اساتذہ کو بھرتی کیا گیا۔ اگر کچھ وقت گزرا بھی، تو اس میں کسی جھنجھٹ کا امکان نہیں تھا اور نہ ہی کسی کیس فیصلے کی وجہ سے آرڈر میں تاخیر ہوئی۔ آج ہزاروں اساتذہ اس عمل کے نتیجے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
2017ء میں حکومت نے مزید کم وبیش 17000 پوسٹوں کا اعلان کیا لیکن اس اعلان میں بڑی تاخیر ہوئی۔ کیوں کہ حکومت ایک نئی پالیسی وضع کرنا چاہ رہی تھی اور اس پالیسی کے لیے انہیں سیاسی محرکات میں سے وقت نکالنا آسان نہیں تھا۔ آخرِکار پالیسی وضع ہوئی اور دسمبر 2017ء میں لگ بھگ سترہ ہزار اسامیوں کا اعلان کیا گیا۔ اس دفعہ اشتہار میں ’’پروفیشنل سرٹیفکیٹ‘‘ کی جگہ ایک اور چیز کا اضافہ کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ ’’اے ٹی‘‘، ’’ٹی ٹی‘‘ اور قاری کے علاوہ تمام کیڈرز میں ہر گریجویٹ اپلائی کرسکتا ہے۔ تاہم کامیاب ہونے کی صورت میں اس کو نو مہینے ’’پی آئی ٹی ای‘‘ یا ’’آر آئی ٹی ای‘‘ سے ٹریننگ لینی ہوگی اور یہ ایک لازمی عمل ہوگا جس سے استاد میں عملی طور پر تدریس کا سلیقہ آجائے گا۔ اس اشتہار میں بی ایڈ جیسی پروفیشنل ڈگری کے علاوہ ’’سی ٹی‘‘ یا ’’پی ٹی سی‘‘ وغیرہ جو کہ سرٹیفکیٹ کورسز ہیں، کو نمبرز نہیں دیے گئے۔ اس اشتہار پر ہنگامہ ہوا اور چند ایک لوگوں نے اس پر کیس کیا کہ ہماری محنت اور پیسوں کے ضیاع کے باوجود ان سرٹیفیکٹس کو اہمیت نہیں دی گئی، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ہمیں اس کے نمبر دے، لیکن پالیسی پالیسی ہوتی ہے۔ سو حکومت کو پالیسی کے مطابق ہی عمل کرنا ہے۔
قطعِ نظر اس سے کہ دونوں پارٹیوں (حکومت اور پروفیشنلز) میں کون حق ہے، اور کون ناحق؟ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان پوسٹوں کو مشتہر ہوئے تقریباً دسواں مہینا چل رہا ہے۔ سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے بچوں کا مستقبل داؤ پر ہے۔ مزید کئی ہزار اسامیاں خالی ہیں جن کا اشتہار موجودہ اسامیوں پر امیدواروں کی تعیناتی کے ساتھ مشروط ہے۔ جیسے ہی موجودہ سترہ ہزار تعینات ہوجائیں گے، مزید پوسٹ ایڈورٹائز کیے جائیں گے۔ درمیان میں الیکشن، رمضان اور عید وغیرہ کی وجہ سے ان پوسٹوں میں تاخیر ہوئی جس کو قابل برداشت مانا گیا، لیکن اب جب کہ دوبارہ پی ٹی آئی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ صوبائی اور مرکزی حکومت میں ہے، تو اس میں کیا امر مانع ہے کہ ان سترہ ہزار غریب گریجویٹس کو ان اسامیوں پر تعینات کیا جائے۔ حکومت نے جس تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا، اس کے مقاصد تو یوں بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوسکتے، جب تک کہ کوالیفائیڈ اساتذہ نہ رکھے جائیں۔
ایک طرف بات ان بچوں کی ہے جو استاد نہ ہونے کی صورت میں مضمون میں پیچھے رہ جاتے ہیں، تو دوسری طرف ان سترہ ہزار نوجوانوں کی زندگی کا سوال بھی ان پوسٹوں کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ تاخیر کے سبب کئی گھر ایسے ہیں جہاں چولہا جلانے کے لیے نوجوان ذلت آمیز حد تک مجبور ہوچکے ہیں۔ کئی لوگ خودسوزی کا سوچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہمت دے۔ یہ صرف سترہ ہزارامیدوار نہیں بلکہ درحقیقت سترہ ہزار گھرانے ہیں جن کی کفالت کرنے والے یہی سترہ ہزار افراد ہیں۔ سو ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ان نوجوانوں کو ان کا حق بلاتاخیر دیا جائے۔ اس عمل میں مزید انتظار نہ کیا جائے۔ اگر کوئی کیس ہے، تو ہماری عدالت، حکومت، پروفیشنل بھائیوں اور وکلا صاحبان کی خدمت میں درمندانہ اپیل ہے کہ براہِ کرم اس کیس کو ختم کیا جائے، تاکہ جوانیاں مزید انتظار کی آگ میں جھلستے جھلستے خاک نہ ہوجائیں۔ نیز متعلقہ ڈیپارٹمنٹس اور DEO’s کی خدمت میں بھی گزارش ہے کہ انٹرویو وغیرہ کے عمل کو تیز کیا جائے، تاکہ جلد از جلد ان اسامیوں پر امیدواروں کی تقرری ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھائی کی توفیق دے، آمین!

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔