عید کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ با تکرار پوچھا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے عید کی نماز کہاں ادا کی؟ سرکار ی ذرائع نے وزیراعظم کی نمازِ عید کی ادائیگی کی تصویر میڈیا کو جاری نہ کی۔سب سے زیادہ ہنگامہ خواجہ سعد رفیق نے مچایا۔ ایسے ایسے ٹویٹ کیے کہ شرفا نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ قومی سطح کا ایک لیڈر ریحام خان کی سطح تک گر سکتاہے، الامان و الحفیظ۔
معلوم نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے عید کی نماز کہاں ادا کی؟ اس جستجو کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ عید اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی تصویریں سوشل میڈیا پر جاری کی جائیں۔ کچھ لوگوں کو عجیب عادت پڑی ہے۔ وہ نجی زندگی ہی نہیں بلکہ مذہبی فرائض کی ادائیگی کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتے ہیں۔ دوست احباب، مبارک مبارک کا شور اٹھاتے ہیں۔ بعض خواتین وحضرات مناسکِ حج کی ادائیگی کو بھی لائیو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا یہ نمودونمائش نہیں؟
اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ نے ایسے کاموں سے سختی سے منع کیا ۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں رکھے گا۔ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس نے اللہ کی راہ میں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ سے جو دیا، بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ حال ہمارایہ ہے کہ حکمران کسی یتیم یا بیوہ کو سرکاری خزانے سے پانچ ہزار کا چیک عنایت کرتے ہوئے تصویر اور ویڈیو بنانا نہیں بھولتے۔ اہتمام سے دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ صاحب بہادرنے سرکاری رقم سے ضرورت مندوں کی اعانت کی۔
نمود و نمائش اور امارت کا چرچا کرنے کا شوق ایسا عام ہوچکا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی خریداری اور انہیں ذبح کرنے میں بھی مسابقت کا ماحول نظرآتاہے۔ سمجھ نہیں آتی جس ملک میں سوا دوکروڑ بچے محض اس وجہ سے سکول نہیں جا پاتے ہیں کہ ان کے پاس کتابوں اور یونیفام کے لیے روپیہ نہیں۔ کروڑوں شہری خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں کہ ان میں اکثر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے۔ لاکھوں روپے کے بیل خرید کر لوگ سو کس طرح پاتے ہیں؟
بعض لوگ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی تصویر جاری کردیتے ہیں۔ بیماروں او رزخمیوں کی ایسی ایسی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں کہ طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔ سردار ابراہیم خان بیمار ہوئے بلکہ موت اور حیات کے آخری مراحل میں تھے۔ لوگ بیماری پرسی کو آتے۔ نجیب انسان نے حکم دیا کہ مہمان اپنے کیمرے اور موبائل فون دروازے سے باہر رکھ کرآئیں۔ کہتے، میں لوگوں کو نہیں دکھانا چاہتا کہ دمِ واپسی کسی قدر کمزور اور لاچار ہوچکا ہوں۔
سوشل میڈیا کی ایک اور بیماری یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں آزاد ہے۔ لوگ اپنی خواہش کو خبر بنا دیتے ہیں۔ سنی سنائی باتوں کو تجزیے کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ کچی پکی باتوں کو تحقیقاتی رپورٹ کا عنوان دے کر پیش کردیتے ہیں۔ ذاتی مخاصمت کو سیاسی اور نظریاتی اختلاف کا رنگ دے کر مخالفین کی سلامتی داؤ کو پر لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ قومی سلامتی کے موضوعات پر ایسی ایسی درفتنیاں چھوڑی جاتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
افسوس!ایسے بزرجمہروں کے ہاتھ روکنے اور گردن میں پڑا سریا نکالنے والا کوئی ادارہ نہیں۔

سوشل میڈیا کی ایک اور بیماری یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں آزاد ہے۔

عمران خان مذہبی پیشوا نہیں ۔ لوگوں نے انہیں ووٹ اس لیے نہیں دیا کہ وہ مذہب کی تعلیم دیں۔ گذشتہ ستّر برسوں سے ان موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے والوں کی بھرمار رہی۔ عطااللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری جیسے شعلہ بیان مقررین بھی گزرے ہیں، جن کا خطاب سننے کی خاطر لوگ ملک کے طول وعرض سے سفر کرتے۔
وزیراعظم عمران خان مذہب کا حوالہ گفتگو اورعوامی خطابات میں عوام کو متحرک کرنے کی غرض سے دیتے ہیں۔ عمران خان کی اکثر تقاریر سے عیاں ہوتاہے کہ انہیں مذہب پر عبور تو درکنار وہ اس کے اچھے طالب علم بھی نہیں۔ سیاست دان عوامی نفسیات کے بہترین ماہر ہوتے ہیں۔ آج کل مغربی دنیا میں بھی کئی ایک سیاسی جماعتیں وجود پاچکی ہیں جو عیسائیت ہی نہیں، کٹر عیسائیت کی پرچارک ہیں۔ وہ لوگوں کے جذبات کو تاریخ اور مذہب کے حوالوں سے تحریک دے کرانہیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
بی بی سی سے وابستہ رہنے والے سینئر صحافی شاہد ملک نے اٹل بہاری واجپائی کے انتقال پر ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے احوال میں مذہب اور سیاست کے چولی دامن کے رشتہ کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن واجپائی کی ہمشیرہ کے گھر نشست تھی۔ واجپائی خوشگوار موڈ میں غالبؔ اور فیض احمد فیضؔ کے شعر سناتے اور محفل کو گرماتے۔ استفسار کیا جناب، آپ لوک سبھا میں شد ہندی میں تقریر کرتے ہیں اور یہاں شستہ اردو میں گفتگو؟ واجپائی مسکرائے اور کہا کہ سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
عمران خان کی سیاست کی عمارت اچھی حکومت کی فراہمی، عدل اور انصاف کا بول بالا کرنے اور معاشرے کے محروم طبقات کی معاشی حالت بہتربنانے کے منصوبے شروع کرنے پر اٹھائی گئی۔ الیکشن کے بعد ان کی دونوں تقاریر سے بھی یہی پیغام ملا کہ وہ ایک سرگرم اور عوام دوست حکومت کی فراہمی کا عزم رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں انہیں ایک ایک کرکے اپنے دعوے اور انتخابی وعدے یاد کرائے۔ نون لیگ اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے حامیوں کو بھی اسی پیرائے میں گفتگو کرنی چاہیے۔ انہیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست کو موجودہ سطح سے اوپر اٹھانا چاہیے۔ بصورت دیگر پاکستانی سماج، الزام تراشی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے دائمی مرض سے کبھی جاں بر نہ ہو سکے گا۔
تحریک انصاف کو بھی اب سوشل میڈیا کے لشکریوں کو تھام کررکھنا ہوگا۔ اب پارٹی اقتدار پرفائز ہوچکی۔ مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا اور انہیں باربار جیل کی کال کوٹھری کی ہوا کھلانے کی دھمکی دینا طاقت نہیں کمزور ی کی دلیل ہے۔حکمران جو تحمل اور حکمت کا مظاہر ہ کرتے ہیں، وہ قوم کی خدمت اور تربیت کرپاتے ہیں۔
لوگ اب تحریک انصاف کی حکومت کا تقابل ماضی کی حکومتوں سے کریں گے۔ کارکردگی کی کسوٹی پر اسے پرکھاجائے گا۔ چناں چہ حکومت کو تیزی کے ساتھ اپنے منشور پر عمل درآمد کے لیے ٹھوس اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا۔ پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کی طرف سے بھی نئی حکومت کو خیر سگالی کے غیر معمولی پیغامات مل رہے ہیں جو خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ احتیاط لیکن پورے عزم سے خطے میں تنازعات کے حل کے لیے قدم بڑھائے جانے چاہئیں۔
حکومت نے دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر بات کی ہے ۔ اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طرح وزیراعظم کو تمام ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کے اشتراک سے ایک جامع پالیسی بنانا ہوگی، تاکہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جاسکے۔ پاکستان میں امن اور سیاسی استحکام کے قیام کے بغیر غربت اور جہالت کے اندھیروں کو اُجالوں میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔