بیس اپریل 2018ء کو میڈیا نے چیف جسٹس آف پاکستان کی پشاور میں موجودگی اور مختلف صوبائی محکموں کی کارکردگی پر توجہ کی خبریں دیں۔ اس سے قبل وہ پنجاب اور سندھ میں محکموں کی غفلتوں اور ناکامیوں پر نظر ڈال چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب نے ایک دفعہ ان کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس کو اپنی عدالتی امور پر توجہ دینا چاہیے اور انتظامی معاملات کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ نواز شریف صاحب نے طنزاً بڑی تعداد میں عدالتوں پر زیرالتو مقدمات کا بھی ذکر کیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ایک لمبے عرصے تک وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہنے والی شخصیت نے لاکھوں زیر التوا مقدمات کی خود بات کی۔ اگر کوئی اور یہ کہتا، تو ہم شک کرتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ خالصتاً عدالت کی وجہ سے زیر التوا نہیں رہتا بلکہ زیادہ تر کیسز میں اس کی وجوہات دوسرے افراد سرکاری یا نیم سرکاری محکموں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ نواز شریف صاحب کی معلومات ہم سے بہت زیادہ ہیں، کتنی اچھی بات ہوتی کہ عوام کے اس پریشانی والے مسئلے کو وہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھتے اور کوئی ایسا حل تلاش کرتے کہ عوام کو سہولیات ملتیں، لیکن ایسا تا حال نہ ہوسکا۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کثیر تعداد میں وکلا موجود ہوتے ہیں اور وہ عدالتی نظام میں مشکلات اور اُن کا حل خوب جانتے ہیں۔
منتخب نمائندوں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ محکموں کی کمزوریوں سے وزرا، وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کو تحریری طور پر مدلل طریقے سے آگاہ کیا کریں، لیکن یہ عادت شائد بہت کم نمائندوں میں ہو۔ البتہ محکموں میں عملے سے لڑنا، بد زبانی کرنا اکثر اخبارات میں آتا ہے، اس طریقے سے اصلاح نہیں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
جو لوگ یا سرکاری نیم سرکاری افراد کرپشن (کسی بھی صورت میں) کرتے ہیں، وہ کبھی اپنی کارکردگی کے بارے میں پوچھنے پر خوش نہیں ہوتے اور اسی قسم کے لوگ ظالم کی تعریف میں آتے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں روپیہ خرچ کرو اور درکار نتائج نہ دو۔ درکار خدمات (سروس ڈیلوری) نہ دو۔ متعلقہ وزیر اندھا اور گونگا رہے، اگر کوئی آفیسر پوچھنے کی جرأت کرے، تو اُسے ٹھکانے لگایا جائے اور جب قومی تاریخ میں پہلی بار ایک فرض شناس چیف جسٹس نے قوانین کے تحت نشان دہی کی، تو ظالموں کے ٹولے نے اعتراض کیا۔ حالاں کہ آئینی اور اخلاقی لحاظ سے یہ کام وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم اور متعلقہ وزیروں کا ہوتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ محکمے درست کام کررہے ہیں کہ نہیں، اُن کے مسائل اور مشکلات و کمزوریاں کیا ہیں اور اُن کو دور کروائیں۔ یہ لوگ ایسا خود کرتے ہیں اور نہ کسی اور کو کرنا پسند کرتے ہیں۔ خود تمام منتخب افراد بھی کافی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ایک تو اچھی خاصی تعداد میں حکمرانی کے خواص نہیں ہوتیں، پارٹیاں متوقع یا نو منتخب افراد کی مختلف ماہرین سے معمولی سی تربیت نہیں کروائیں اور سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہمارا تقریباً ہر منتخب نمائندہ غیر متعلقہ پیاروں کے مضبوط دائروں میں روزِ اول سے پھنس جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر منتخب نمائندے کے پاس عمدہ افراد ہوں، سکول ماسٹرز، کلرکس وغیرہ کی اتنی قوت (کپیسٹی) نہیں ہوتی جو ایک ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر کو درکار ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات تو چور اُچکے عوامی نمائندوں کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔
وہ لوگ جو محکموں کے کام نہ کرنے یا کرپشن کرنے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر رہتے ہیں، وہ مظلوم کی تعریف میں آتے ہیں۔ اخبارات وغیرہ سے پتا چلتا ہے کہ عوام کی اکثریت چیف جسٹس کے اقدامات کی تعریف کرتی ہے اور ڈومور کی خواہش مند ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ منتخب نمائندے عوماً سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی چاپلوسوں، خوشامدوں اور غیر قانونی مراعات کے دائروں میں پھنس جاتے ہیں اور وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق تبدیلی نہیں آتی۔
مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ جب برائی دیکھو، تو اُسے ہاتھ سے ختم کرو۔ ہاتھ میں طاقت نہ ہو، تو زبان سے روکو، اگر زبان میں بھی طاقت نہ ہو، تو اُس برائی سے دل میں نفرت رکھو اور یہ آخری درجہ کمزور ایمان کی نشانی ہے۔ قرآن کا حکم ہے کہ گناہ سے خود بھی بچا کرو اور دوسروں کو بھی بچایا کرو۔ خود بھی نیکی کرو اور دوسروں کو بھی نیکی کرنے کی ترغیب دیا کرو۔
چیف جسٹس صاحب کے اقدامات ان دینی احکامات کے مطابق ہیں اور اُن حضرات کو ممنون ہونا چاہیے کہ وہ نقائص جن کو متعلقہ لوگ اُن (وزرا وغیرہ) سے چھپاتے ہیں، وہ چیف صاحب اُن کو دکھا؍ بتا دیتے ہیں۔ کارکردگی کی جانچ اور نگرانی (مانیٹرنگ آف پرفارمنس اور پرفارمنس آڈٹ) آج کی حکمرانی کی تسلیم شدہ حصے ہیں۔ ان سے انکار خطرناک بات ہے۔ حضرتِ عمر ؓ کی حکمرانی کے طریقے آج دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم استعمال کرتے ہیں۔ عدل کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جتنی اجرت لی ہوئی ہے، اُتنا کام کر دکھانا ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے محکمۂ تعلیم کے ایک شعبہ کو ایک کھرب روپیہ دیا، لیکن اچھی کارکردگی کے لیے رشوت بھی دینا شروع کیا۔ اب مثبت اثرات کیا ہوئے ہیں؟ یہ ہر باپ اپنے گھر میں موجود زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کی تعلیمی حالت سے معلوم کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ شخصیات کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو واپس کروایا گیا۔ ایک سیاسی پہلوان نے درخواست کی ہے کہ اُن کو یہ رعایت واپس دی جائے، کیوں کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے، تو بھئی! آپ تو ایک امیر آدمی ہیں۔ آپ اپنی چوکیداری کے لیے کیوں کچھ افراد ملازم نہیں رکھتے؟ کے پی کے میں تقریباً دو ہزار پولیس غیر سرکاری ڈیوٹیوں سے چیف جسٹس نے واپس بلوائے۔ اگر ایک فرد کی ماہوار تنخواہ 25 ہزار روپیہ ہو، تو دو ہزار افراد کو پانچ کروڑ روپیہ ادا کیا جاتا ہے۔ اُن افراد کے لیے جو ملک و قوم کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ الٹا کئی ایک فوائد حاصل کرتے ہیں، پر قومی خزانے سے اخراجات نہیں ہونے چاہئیں۔

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔