پاکستان میں حالیہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں کو الیکشن کے نتائج پر اعتراضات ہیں، جس پر یہ سیاسی جماعتیں مختلف طریقوں سے ردِعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچستان کے امیدواروں اور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کو ہرایا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ جس پر متعلقہ جماعتوں نے نہ صرف نتائج مسترد کیے ہیں بلکہ وہ مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل بھی بنانے جا رہی ہیں۔
قارئین، جیسا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہیں۔ ہار جیت نہ ہو، تو کھیل کا مزہ ہی نہیں رہتا، لیکن بے ایمانی سے جیت نہ صرف کھیل خراب کرتی ہے بلکہ کھلاڑیوں کا مورال بھی ڈاؤن کرتی ہے۔ مگر جیسا بھی ہو، ایک جمہوری عمل کے نام سے الیکشن کا عمل ہوا ہے۔ اب اسے ماننا ہی پڑے گا، تاکہ یہ ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آگے تو بڑھ سکے۔
قارئین، میں الیکشن میں دھاندلی کے موضوع پر آج کچھ نہیں لکھنے جا رہا۔ کیوں کہ ملک کے تمام لکھاری اس پر لکھ رہے ہیں۔ اس کی بجائے میں الیکشن میں دو پشتون قوم پرست جماعتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن کو خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
پہلے اگر عوامی نیشنل پارٹی کی بات کریں، تو خیبر پختونخوا میں مذکورہ پارٹی کو 2013ء سے مسلسل دوسری مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ 2008ء سے 2012ء تک اقتدار میں رہنے کے باوجود عوام کو صحیح طرح اپنی خدمات ڈیلیور کرنے میں ناکامی ہوسکتی ہے۔ ا گرچہ ا ے این پی نے خصوصاً تعلیمی سیکٹر میں قابلِ تعریف کام کیے، لیکن اس کے علاوہ اے این پی کے رہنماؤں نے بڑی تگ ودو کے بعد اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے ’’خیبر پختونخوا‘‘ رکھ دیا۔ دوسری طرف اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے، تو پارٹی کی اس ہار کی سب سے بڑی وجہ ’’طالبان‘‘ کی پارٹی رہنماؤں کو دی جانے والی مسلسل دھمکیاں اور حملے ہی ہے۔ طالبان نے پارٹی کے رہنماؤں کو 2013ء میں انتخابی مہم کے دوران میں اپنے گھروں میں محصور کیے رکھا۔لہٰذا وہ مجبوراً ٹیلی فونک جلسے کرتے رہے۔ پارٹی رہنماؤں کے حجروں، دفاتر، جلسوں اور جنازوں سمیت خود ان رہنماؤں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران میں بھی اے این پی پر خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں پارٹی کے اہم رہنما شہید ہوگئے۔ باقی ماندہ رہنما ’’طالبان‘‘ کے خوف سے اپنے انتخابی مہم جاری رکھنے سے کتراتے رہے۔ ہاں، یہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی ’’یوتھ‘‘ پارٹی کے نظریے سے بالکل بے خبر اور لاعلم ہے۔ کیوں کہ گذشتہ چند سالوں سے یہی پارٹی کارکنوں سے اپنا نظریہ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنا اصلی مشن چھوڑ کر گلی کوچے بنانے کی سیاست کر رہی ہے۔ اگر بات گلی کوچے بنانے کی سیاست کی ہو، تو اب تو تحریک انصاف اتنے گلی کوچے بنا دے گی کہ آئندہ کئی سالوں تک اس حوالہ سے جیتتی رہے گی۔ اب ’’قامی سیاست‘‘ کا زمانہ ہے۔ لوگوں کو ’’گلی کوچہ‘‘ نہیں ’’حقوق‘‘ چاہئیں۔ تعلیم، روزگار اور دیگرسہولیات چاہئیں، جو مل نہیں رہیں، تو عوام کو مجبوراً ایک متبادل کی ضرورت پڑنی تھی۔
قارئین، دراصل پشتون قوم پرست جماعتیں خوش فہمی میں رہ کر عوام میں اپنا مقام کھوچکی ہیں۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ اس ملک کی اصل طاقتوں نے ان کو ہرایا ہے بلکہ انہیں اپنے عوام اور قوم دوستی کی سیاست میں اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اگر انہیں ہرانے کے لیے ایک طرف خفیہ ہاتھ کار فرما ہیں، تو دوسری طرف وہ بھی ’’قامی سیاست‘‘ میں بڑی بڑی کوتاہیاں کرتی چلی آرہی ہیں، جس کی وجہ سے عوام انہیں چھوڑ کر دوسرے لوگوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں۔

بات صرف یہ نہیں ہے کہ اس ملک کی اصل طاقتوں نے ان کو ہرایا ہے بلکہ انہیں اپنے عوام اور قوم دوستی کی سیاست میں اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔

آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یورپ اور امریکہ میں بھی عوام ایسی جماعتوں کو رد کر چکے ہیں، جو صرف کھوکھلے نعروں پر سیاست کرتے تھے، جن کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔ امریکہ میں بھی ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کی جیت عوام کی جمہوری قوتوں سے نفرت کا نتیجہ تھی۔ عوام کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، تو اسی لیے ٹرمپ کو منتخب کرلیا۔ عوام سب جانتے ہیں کہ جب حد پار ہوجائے، تو ووٹ کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ سالوں سے قابض جماعتوں کو نیچے گرادیتے ہیں۔ اس لیے عوام کے ساتھ مخلص رہنا ہی سیاست کا نام ہے۔
قارئین، اب تو جو ہوا سو ہوا۔ عوامی نیشنل پارٹی کو آئندہ کے لیے کچھ اصلاحات کرنی چاہئیں۔ اپنی جماعت میں جمہوری عمل کو صحیح طریقے سے نافذ کرنا چاہیے۔ اس جمہوری اور جدید دور میں موروثی نظام عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ پارٹی میں انتہائی قابل اور سمجھ دار لوگ موجود ہیں، جن کو آگے لانا چاہیے۔ سٹوڈنٹس اور یوتھ تنظیموں میں سیاسی اور ادبی پروگرامات کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ سیاسی، ادبی اور شعوری کتابیں دے کر کارکنوں میں نظریے کو مضبوط کرانا چاہیے۔ کیوں کہ ایک فکر اور نظریے کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی۔
اب آتے ہیں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف۔ بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی شکست بھی اسی بات کی ترجمانی کرتی ہے کہ ژوب سے لے کر کوئٹہ اور چمن تک پانچ سال میں عوام کو وہ سہولیات مہیا نہیں کی گئیں جو عوام کا حق تھیں۔ محمود خان اچکزئ پانچ سال تک مرکزی حکومت کے حصہ دار رہے۔ ساتھ ہی وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی تھے۔
اس طرح پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئ کا بھائی گذشتہ ساڑھے چار سالوں سے بلوچستان کاگورنر بھی رہا ہے، مگر پھر بھی ان کا بری طرح سے ہارنے کا عمل یہ بات واضح کرتا ہے کہ وہ عوام کی امنگوں پر پورے نہیں اترے ہیں۔
چلیں، یہ بھی مان لیا کہ اسی پارٹی نے بلوچستان میں ترقیاتی کام کیے ہیں اور اس کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ عوام ان سے مطمئن ہیں اور دھاندلی سے ان کو ہرایا گیا ہے، تو عوام اپنے رہنماؤں اور نمائندوں کے ہارنے پر پھر خاموش کیوں ہیں؟
امریکہ میں ٹرمپ کے ہاتھوں شکست کے بعد بھی ہیلری کلنٹن کا یہی رونا تھاکہ ٹرمپ کو سی آئی اے نہ جتوایا ہے، اگر امریکہ جیسے ملک میں الزامات لگتے ہیں، تو پاکستان میں ایسے الزامات کا لگنا بالکل غیر معمولی بات نہیں۔
قارئین، اس تمام تر صورتحال کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب جو بھی ہوا، اچھا ہوا۔ اب انتخابات ہوچکے ہیں، جس پر اربوں روپے لگ چکے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر اس ٹوٹے پھوٹے نظام کے آگے بڑھنے میں ہی سب کی بہتری ہے۔ بس ’’قام پرستوں‘‘ سمیت شکست خوردہ جماعتوں کو پانچ سال تک سرے سے اپنے کام اور کارکردگی پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ عوام کے پاس ووٹ ایک بہت ہی اہم ہتھیار ہے۔ دھوکے کی صورت میں یہی ووٹ پھر کسی کے بھی خلاف چل سکتا ہے۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔