کسی بھی لسانیت، صوبائیت اور نسلی تعصب کے بغیر میں سچائی اور پوری دیانت داری کے ساتھ یہ تحریر کرنے جا رہا ہوں کہ
٭ منظور احمد پشتین عدم تشدد کے فلسفے یا راستے پر گامزن ہے۔
٭ منظور احمد پشتین کا "گریٹر پشتونستان” کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ ریاست اور اس کی بقا پر یقین رکھتا ہے۔ البتہ پروپیگنڈا ماہرین کسی طرح پشتین کو غدار ثابت کرکے تحریک کو کالعدم تنظیموں کی لسٹ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
٭ منظور احمد پشتین کچھ سرکردہ آرمی آفیشل کے علاوہ اور جنہوں نے دوسرے ممالک میں دخل مداخلت اور "سٹریٹجک ڈیپتھ” کی پالیسی بنائی ہوئی ہے، کے مکمل خلاف ہے اور یہ بالکل غلط پروپیگنڈا ہے کہ منظور احمد پشتین پوری فوج کے خلاف ہے۔
٭ منظور احمد پشتین اور پی ٹی ایم پہلے اور نہ بعد میں کبھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے اور نہ رہیں گے۔ یہ اس کی تقریروں کا عنوان ہوتا ہے۔
٭ منظور احمد پشتین اپنے جائز حقوق ریاستی قوانین کے اندر رہ کر لینا چاہتا ہے۔ اس طرح منظور پشتین پاکستانی قوانین کا امتیاز کے بغیرعمل درآمد چاہتا ہے۔
٭ پختونوں کے ساتھ ناروا ظلم کو آشکارا کرنا اور اس کا مداوا لینا کسی طور ناجائز نہیں۔ ریاست حقائق کا ادراک کرے اور مفاہمانہ کمیشن قایم کرے۔
٭ منظور احمد پشتین کو نواز شریف کے ساتھ نتھی کرنا کسی طور ٹھیک نہیں۔ اوّل الذکر مظلوم ہے جب کہ مؤخر الذکر کے اپنے سیاسی اہداف ہیں۔
٭ منظور احمد پشتین کا پنجاب میں خوں ریزی کا کوئی ایجنڈا نہیں۔
٭ امریکی بیان، بی بی سی، دی اکانومسٹ اور سرکاری ایجنسیوں کے اطلاعات بالکل غلط ہیں۔ مذکورہ اطلاعات کا اصل مقصد اسٹیبلشمنٹ کو پختون تحفظ تحریک سے لڑانا ہے، جو پختون تحفظ تحریک کسی طرح نہیں چاہتی۔ فوج مخالف بیانات کا یہ مقصد نہیں کہ پختون تحفظ تحریک فوج کے خلاف ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ فوج کے بعض افسران کی باتوں کا بالکل واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ ریاست کے سیکورٹی ادارے "سٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی” کا تسلسل چاہتے ہیں۔ اس لیے پختون تحفظ تحریک ان امن دشمنوں کو واضح اور کھلا پیغام دیتی ہے کہ اس قسم کی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ یہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے خلاف ہے۔

منظور احمد پشتین کا "گریٹر پشتونستان” کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ ریاست اور اس کی بقا پر یقین رکھتا ہے۔

٭ سلامتی اور بقا، عالمی قوانین کے توسط سے جس طرح کہ پاکستان کا حق ہے، اسی طرح افغانستان اور تمام دوسرے ممالک کا بھی حق ہے۔ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے، اس کی سلامتی اور بقا کو داؤ پر لگا کر پاکستان کا صوبہ تصور کرنا اس میں خوں ریزی کرنا، دہشت گردوں کو سپورٹ کرنا خود پاکستان کی سلامتی و بقا کے خلاف ہے اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
٭ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں پر سیاسی عملیات میں دوسرے ناموں کے ساتھ الیکشن لڑنے پر فوری پابندی لگائے۔ کالعدم تنظیموں کو نکیل ڈالے اور دوسرے ممالک اور یا اپنے ملک میں اسے بطور مجاہدین پیش نہ کرے۔ ورنہ دوسری صورت میں خدا نہ کرے ہم بلیک لسٹ ہو سکتے ہیں۔
٭ اداروں کو سیاست میں استعمال کرنے کا عمل چپقلش کو ہوا دے سکتا ہے۔ ان حالات میں عالمی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے ذمہ دار ریاست اور مقتدر ادارے ہوں گے۔ اس سارے عمل میں پی ٹی ایم کا کوئی کردار نہیں، نہ ان کو نون لیگ سے ملایا ہی جاسکتا ہے۔
٭ ففتھ جنریشن وار تھیوری کی کڑیاں سیکورٹی اداروں اور ریاستی پالیسی ہر گز نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالمی استعمار ہمیں اس طرح کھلا چھوڑ دے گا۔ کیونکہ بادی النظر میں اقوام متحدہ کے زیرِ اثر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنا اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان، غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
٭ منظور احمد پشتین اور پی ٹی ایم کے تمام مطالبات جائز اور قانونی ہیں۔ اس کے مطالبات کی تصدیق سیاسی پارٹیوں کے علاوہ آرمی آفیشل نے بھی کی ہے۔ اب اگر اس کو سیاست زدہ کیا جاتا ہے یا اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے یا اس سے ناجائز فائدہ لینے کی خاطر حالات کو قصداً عمداً خراب کیا جاتا ہے، تو اس کی ساری ذمہ داری ریاست پر آئے گی۔
٭ پی ٹی ایم جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور کسی صورت پاکستان یا پنجاب میں کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جمہوریت میں آزادیِ اظہارِ رائے اور آزادیِ تقریر جیسی اصطلاح کی اصل اِفادیت اس نے آشکارا کی ہے۔ اس لیے پی ٹی ایم سے پاکستان کو خطرہ ہے اور نہ کسی اور کو۔ البتہ طاقت کی بنیاد پر پختونوں کو زیر کرنے والوں کو پی ٹی ایم سے ضرور خطرہ ہے۔ کیوں کہ پی ٹی ایم مزاحمتی تحریک ہے اور یہ ہر جگہ اپنی بات بغیر کسی ڈر اور خوف کے کرتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی اسی صورت ممکن ہے جب فیڈریشن کے اندر تمام قومیتوں کو ان کے بنیادی حقوق اور وسائل پر حق دیا جائے۔ اس طرح ممکن ہے کہ پاکستان کی تمام قومیتیں اُخوت اور بھائی چارے سے رہیں۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔