انقلابات برپاکرنے کے لئے نئے نئے فلسفے اور بیانیے کھڑے کئے جاتے ہیں۔ فکر کو نئے زوایے دئیے جاتے ہیں۔ نئی اصطلاحات وضع کی جاتی ہیں۔ یکسر مخالف نظام کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں۔ مردِ آہن ’’سٹیس کو‘‘ مخالف لیڈر کو چنا جاتا ہے۔ ایسا لیڈر جو استحصالی نظام سے ٹکر لے سکے اور جو چند سکوں اور مراعات کے بدلے بیچا نہ جا سکتا ہو۔ جو نڈر، دانشور اور فلسفی ہو۔ جو مشکل حالات میں راہنمائی کا فریضہ جانتا پہچانتا ہو۔جس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہو ۔ جو مخالف سمت کے ہر سوال کا بھرپور جواب دے سکتا ہو۔جوخود علم و عمل کا عملی نمونہ ہو۔ جس کے مفادات مجموعی اور بقائے انسانیت کے تقاضے پورے کرتے ہوں۔ جو صادق اور امین ہو۔ جو اپنے لوگوں کی تربیت اعلیٰ انسانی اصولوں کے عین مطابق کرنا جانتا ہو۔
انقلاب صرف لانا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کو لاگو کرنے کے لئے قابل اور باصلاحیت افراد اور دانشوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعد از اں اس انقلاب کو قائم رکھنے کی بھرپور جستجو اور حکمت عملی اپنانا پڑتی ہے۔ کمزور بنیادوں پر دیرپا تعمیر ممکن نہیں ہوتی اوراس طرح قائم شدہ عمارت زیادہ دیر قائم بھی نہیں رہتی۔
پاکستان میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں ساری پارٹیاں ’’سٹیسٹس کو‘‘ والی ہیں۔ یہ عملاً رائٹیسٹ یا دائیں بازو والی ہیں۔ کوئی لیفٹسٹ یا بائیں بازو والی پارٹی نہیں ہے۔ ان پارٹیوں میں قریباً سارے کرتا دھرتا اشراف و خواص ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی ان پارٹیوں میں عنقا ہے۔ سیاست، دراصل معیشت کی مجتمع شدہ شکل ہے۔ سیاسی کامیابی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاسی طور پر مجموعی معیشت مضبوط بنائی گئی ہے۔ سیاسی گھاگھڑ ایسی قانون سازی سے پرہیز کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔

پاکستان میں پینتالیس فیصد افراد الیکشن میں حصہ لیتے ہیں

پاکستان میں پینتالیس فیصد افراد الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ زیادہ افراد الیکشن میں ووٹ اس لئے بھی نہیں ڈالتے اور اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ الیکشن سے ان کی قسمت نہیں بدلنے والی، بلکہ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ دراصل ان نام نہاد حکمرانوں کا وطیرہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ حکمران مترقی قانون سازی اس لئے بھی نہیں کرتے کہ پھر ان کی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ پر روک لگ جائے گا۔ تاریخی طور پر تمام سیاسی تجزیوں کی بنیاد معیشت رہی ہے۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ معیشت اور منڈی کا زمانہ ہے۔ تمام تر چکر صرف دولت اور جائیداد کے تحفظ کا ہے۔
قارئین، آئی سمجھ میں بات کہ جہاں ایک فرد کو بنیادی حقوق میسر ہوں، وہاں وہ کیوں کر کرپشن، چوری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرے گا؟ خالی پیٹ سے ریاضت اور عبادت کی جاسکتی ہے اور نہ اعلیٰ نظریات پر غور و فکر کا عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔اگرکچھ کیا جاسکتا ہے، تو بس خوراک اور سر چھپانے کا بندوبست ہی کیا جاسکتا ہے۔
جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام پھیلتاہے۔ اس کا سماجی اور معاشی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ قریباًساری دنیا سرمایہ داری نظام کے عفریت کے قبضہ میں آگئی ہے۔ سرمایہ دار قومیں خونخوار دروندوں کی طرح چھوٹی قوموں کو کھانے کی پوزیشن میں ہیں۔ دنیا بھرمیں معیشت کے پھیلاؤ کی وجہ سے چھوٹے ممالک مالیاتی بحرانوں کی زد میں ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور وال سٹریٹ سرمایہ داروں کے دلال اور بنیا بنے بیٹھے ہیں۔ انہی سرمایہ دار ممالک کو تحفظ اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے نام نہاد مالیاتی ادارے بنائے گئے ہیں، جو بحران زدہ ممالک کوبھاری سود پر قرضے دے کر ان کے وسائل لوٹتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک نے یہی قرضے کئی مرتبہ اد کر دئیے ہیں لیکن پھر بھی سود در سود سے وہ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ان ممالک میں اداروں کی نجکاری، بڑے پیمانے پر صنعتوں سے مزدوروں کی دخلیابی اور کم سے کم افراد سے مشقت لینا، لیبر قوانین اور سرمائے کی غلامی پر مبنی ہے۔ جہاں ایک طرف قحط، خود کشیاں اور غربت جنم لیتی ہے، تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لئے انسانیت کی یہ بربادی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ بجلی، پانی، مواصلات اورصحت کو نجی شعبے میں دینے کا مطلب انسان کو زندہ رہنے کے لئے اپنی مجبوریوں کو منافع کی شرح پر قربان کیا جانا ہے۔ پراکسی جنگیں اور زیر دست ممالک کے وسائل کو لوٹنے کے نئے سرمایہ دارانہ جوازات سامنے آچکے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہی نام نہاد اشرافیہ اور حکمران سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تسلسل کو راہِ نجات سمجھتے ہیں۔
تیسری دنیا میں عصمت فروشی تیسری بڑی صنعت بن چکی ہے۔ سائلوں، محتاجوں اور محروموں کے ریوڑ مساجد اور بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اصلاح کرنے کی خاطر نئی حکومتیں بنائی جاتی ہیں لیکن پہلے کی طرح جلد یا بدیر ناکام ہوجانا ان کا مقدر ہوتا ہے۔

ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے

آبادی حد سے متجاوز ہوچکی، ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کیا ایسے حالات میں انقلاب کی ضرورت نہیں ہے، کیا یہ امید بھی توڑ رہی ہے؟جواب ہے ’’بالکل نہیں!‘‘
درحقیقت پارٹیوں کے اندر قابل اور دانشور افراد اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ یہی لوگ بعد ازاں انقلاب لانے کے لئے جذبہ رکھتے ہیں۔ مروجہ سیاسی پارٹیاں اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ یہ ’’سٹیس کو‘‘ کی پارٹیاں رواں ظلم و جبر کو جائز سمجھتی ہیں۔ انگریز کے مقرر کردہ نظام میں یہی عمل پنہاں ہے کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ جنگیں مسلط کرکے جمہوری سرمایہ داری نظام کو ترویج دو۔ کیوں کہ اصل میں ظلم اور جبر اسی طرح ہی جاری اور ساری رہ کر حکومت کی جاسکتی ہے۔
مزدور پیٹ کے جہنم سے فارغ نہیں اور جنگ کرنے کی صورت میں مزدورکسان کی رہی سہی کسر پوری ہوجاتی ہے۔ اگر بفرض محال وہ انقلاب اور تبدیلی کا دعویدار بن جائے، تو قرض کے چنگل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
یہ قصہ صرف ایک مزدور تک ہی محدودنہیں بلکہ متوسط طبقہ کوبھی اپنے مسائل حل کرنے سے فراغت نہیں ہے۔ اس لئے سرمایہ داروں کے گماشتوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ سماجی طور پر اتنے طبقے اور سیاسی و مذہبی پارٹیاں عمل میں لائی گئی ہیں کہ ایک بھی پارٹی دوسری کی بات کا احترام نہیں کرتی بلکہ تند و تیز جملوں سے ایک دوسرے کی قوت اور اصلاح کو زائل کرتی ہیں۔

میری نظر میں اس صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ مذکورہ پارٹیوں کے افراد پرانی پارٹیوں سے نکل کر ایک آزاد انقلابی پارٹی کی داغ بیل ڈالیں

میری نظر میں اس صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ مذکورہ پارٹیوں کے افراد ان دقیانوسی پارٹیوں سے نکل کر ایک آزاد انقلابی پارٹی کی داغ بیل ڈالیں ، جو الیکشن میں حصے لیں اور نہ ہی سیاسی مفادات کی الہ کار بنیں بلکہ مذکورہ افراد قوم کی ذہن سازی پر مغز کھپائی کرکے انقلاب کے لئے راہ ہموار کریں، جو سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام سے یکسر مخالف نظام ہو، جہاں انسانیت اور آدمیت کی قدر ہو۔