انسان کی پیدائش اس دنیا میں دو ہستیوں کی مرہونِ منت ہے، یہ ہیں والدین یعنی ماں باپ۔ لہٰذا اولاد پر ان کے حقوق بھی واضح ہیں۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے کہ ’’ والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر تمہارے پاس رہیں، تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ نرمی اور ادب کے ساتھ بات کیا کرو۔‘‘
ظاہر ہے کہ حمل اور پھر پیدائش سے لے کر لڑکپن تک ماں بچے کی پرورش اور نگہداشت پر کافی مشقت اُٹھاتی ہے۔ اس وجہ سے ماں کی اہمیت، اکرام اور احترام باپ کی نسبت زیادہ ہے جب کہ آنحضرتؐ کا یہ ارشادِ مبارک بھی ہے کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘
لیکن بحیثیت مربی اور پالنہار باپ کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں سرورِ کائناتؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’والد جنت کا وسطی دروازہ ہے، اگر تو چاہے، تو اس وسطی دروازے کی حفاظت کر یا اسے بند کردے۔‘‘
ہر سال 17 جون کو پوری دنیا میں ’’ورلڈ فادرز ڈے‘‘ (World Father’s Day) یعنی باپوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اپنی ایک تاریخ اور پس منظر ہے۔ ہم اس دن کی نسبت سے والد کے فرائض اور اولاد پر اس کے حقوق کے بارے میں چند باتیں اور حکایات قلم بند کرتے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر والد اپنی اولاد کی تربیت سے لاپروائی کرے، تو بسا اوقات اس کے نہایت دلخراش نتائج نکلتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ، آنحضرتؐ سے روایت کرتے ہیں کہ باپ کے ذمہ بیٹے کے حقوق میں سے تین چیزیں ہیں۔ اول یہ کہ پیدائش کے وقت اچھا نام رکھے، دوم یہ کہ بیٹا جب سمجھ دار ہوجائے، تو اسے قرآنِ پاک پڑھائے، سوم یہ کہ جب بیٹا بالغ ہوجائے، تو اس کا نکاح کردے۔
حکایات میں آیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص اپنا بیٹا لایا اور کہا کہ میرا یہ بیٹا میری نافرمانی کرتا ہے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ اس لڑکے سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ کیا تجھے خدا کا خوف نہیں کہ اپنے والد کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس پر لڑکا کہنے لگا کہ امیر المؤمنین! کیا بیٹے کا باپ پر کوئی حق نہیں؟ فرمایا، کیوں نہیں۔ بیٹے کا باپ پر حق ہے کہ باپ گھٹیا عورت سے شادی نہ کرے، تاکہ ماں کی وجہ سے اسے کوئی شرمندہ نہ کرے، یہ کہ بیٹے کا اچھا نام رکھے اور قرآنِ پاک کی تعلیم دلائے۔ لڑکا کہنے لگا کہ خدا کی قسم، اس نے میری ماں کا انتخاب اچھے خاندان میں سے نہیں کیا بلکہ میری ماں کو چار سو درہم میں خرید کر لایا تھا۔ میرا نام بھی اس نے جُعل (گبریلا) تجویز کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت تک نہیں سمجھائی۔ حضرت عمر ؓ باپ کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے کہ تو کہتا ہے کہ تیرا بیٹا تیری نافرمانی کرکے تیری حق تلفی کرتا ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تمہاری حق تلفی کرنے سے پہلے خود تو نے اس کے حقوق ضائع کیے۔
دوسری حکایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک بزرگ کے پاس آکر شکایت کی کہ بیٹے نے مجھے مارا ہے اور ایذا پہنچائی ہے۔ بزرگ فرمانے لگے، سبحان اللہ! کیا بیٹا اپنے باپ کو مار سکتا ہے؟ وہ آدمی کہنے لگا، جی ہاں۔ بزرگ نے پوچھا، تیرا بیٹا کیا کام کرتا ہے؟ جواب دیا، کھیتی باڑی کا کام کرتا ہے۔ بزرگ نے پوچھا، کیا تم نے اُسے کچھ ادب اور تعلیم سکھایا ہے؟ کہا، نہیں۔ بزرگ نے پھر پوچھا، کیا تم نے اُسے قرآن پڑھایا ہے؟ کہا، نہیں۔ بزرگ نے کہا، معلوم ہے، کہ تیرے بیٹے نے تجھے کیوں مارا ہے؟ کہنے لگا ، نہیں۔ بزرگ نے فرمایا، ممکن ہے جب وہ گدھے پر سوار ہوکر کھیت کی طرف جارہا ہوگا، بیل اس کے آگے اور کتا اس کے پیچھے پیچھے ہوگا، قرآن تو وہ جانتا ہی نہیں، اپنے گیت میں مگن ہوگا، تو نے اس وقت اسے ٹوکا ہوگا، تو اس نے تجھے بیل سمجھ کر مار دیا۔ شکر ہے کہ اس نے تیرا سر نہیں پھوڑ دیا۔
دنیا دار العمل ہے اور ہر انسان کو مکافاتِ عمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اُردو کا مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’جو بوؤگے وہی کاٹوگے۔‘‘ آج تم نے جس کے ساتھ جو سلوک کیا اور جو رویہ اختیار کیا کل تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جائے گا۔ ’’حقوقِ پدراں‘‘ بارے مذہبی کتابوں میں ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کسی جگہ پر اپنے باپ کو مار رہا تھا۔ اس پر بیٹے کو کسی نے ٹوکا تو باپ کہنے لگا، اسے کچھ نہ کہو، میں بھی اپنے باپ کو یہاں پر پیٹا کرتا تھا۔ مجھے بھی ایسا بیٹا ملا جو مجھے اسی جگہ پیٹتا ہے۔ اس پر کوئی ملامت نہیں بلکہ یہ میرے اس عمل کا نتیجہ ہے۔ (فاعتبرو یا اولی الالباب)
سردار دو جہاںؐ کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’چار چیزیں انسان کی خوش قسمتی میں شمار ہوتی ہیں۔ بیوی نیک ہو۔ اولاد فرمان بردار ہو۔ دوست احباب نیک ہوں۔ رزق اپنے شہر میں ہو۔‘‘

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔