دو چیزوں کو سیاست میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ پہلی، آپ کا نظریہ جو سیاست میں ایک کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ آپ جب تک اپنے نظریے پر کاربند رہتے ہیں، آپ کو کوئی نہیں ہرا سکتا اور وہ لوگ جو آپ کو فالو کرتے ہیں، ان کی نظروں میں آپ ہمیشہ ایک مسیحا اور دیوتا ہی رہتے ہیں۔
دوسری چیز، ورکر جو کسی بھی پارٹی اور گروپ کے لئے اہم ترین اثاثہ ہوتا ہے۔ آپ کے ورکرز جب تک آپ سے خوش اور مطمئن رہتے ہیں، تب تک آپ کو کوئی مائی کا لعل نہیں گرا سکتا۔ ورکر مطمئن رہتا ہے، تو قیادت اور ورکر کے درمیان مستقل رابطہ رہتا ہے جس کی وجہ سے کبھی غلط فہمیاں جنم نہیں لیتیں۔ یہ دو چیزیں کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے اہم ہیں، لیکن جب ان دونوں میں کوئی ایک بھی چیز ختم ہوجائے، توپھرہر طرف نقصان ہی ہوتا ہے۔
ضلع بونیر میں بھی حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھالیا ہے کہ نظریے اور کارکن دونوں کو شکست دینے اور ان سے جان چھڑانے کی کوشش ہو رہی ہے، جس کا نقصان یہاں موجود ہر خاص و عام کو ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف نے چند دن پہلے الیکشن دو ہزار اٹھارہ عیسوی کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے دوسرے اضلاع کی طرح بونیر میں بھی یہ اعلان تحریک کے نظریاتی کارکنوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ بائیس سال سے جو لوگ پارٹی کے لیے تن من دھن کی قربانی دیتے چلے آئے ہیں، وہ بھی پارلیمانی بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف سخت غصہ اور ناراض دکھائی دیے۔ میں نے تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور ملاکنڈ ریجن کے سینئر نائب صدر امیر الامان خان سے ریڈیو بونیر میں اپنے پروگرام ’’روانے چارے‘‘ میں تفصیلی گفتگو کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ جو فیصلے پارلیمانی بورڈ نے کیے، وہ حد سے زیادہ تعصب پر مبنی ہیں اور وہ لوگ اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اس نے مزید کہا کہ ’’میں وہ لمحات کبھی نہیں بھلا سکتا، جب ہم اگست دھرنے کے لیے اسلام آباد جا رہے تھے، تو ایسے غریب کارکن بھی ساتھ تھے، جنہوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کر ڈالی، لیکن خان صاحب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے لیے موجود رہے۔ اب میرا مسئلہ یہ نہیں کہ ٹکٹ کس کو ملا؟ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن کارکنوں کی وجہ سے ہماری پارٹی نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی، ان کو دوبارہ جنون کی لہروں کی طرف کیسے دھکیلوں گا؟‘‘
پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں کا پارٹی پر کیا اثر ہوگا؟ وہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن فی الحال ایک بات تو کنفرم ہے کہ جس جنون اور انصاف کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان تحریک انصاف آگے بڑھ رہی تھی اس پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ یہ تو اب تک سامنے نہیں آیا، لیکن تحریک انصاف کے کارکن ایک مستقل الجھن کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس الجھن اور ان تمام شکوک و شبہات کا فائدہ بونیر کی دوسری پارٹیوں کو ہوگا اور نقصان تحریک انصاف کو کچھ ایسا ہوگا کہ ہوسکتا ہے ان کا ایک بھی امیدوار الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ کیوں کہ کارکنوں کے ذہنوں میں جب ہائی کمان کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لینے لگیں، تو پھر تحریکیں خود بہ خود ختم ہوجاتی ہیں۔
جو سب سے حیران کن بات اس پورے منظر نامے میں مجھے نظر آئی، وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیڈرز اپنے بیانات میں عمران خان کو اس تمام عمل سے لاعلم ٹھہرا رہے ہیں اور یہ صرف ضلع بونیر میں نہیں بلکہ یہ صوبے کے ہر ضلع کی کہانی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خان صاحب حقیقت میں اس پورے پراسیس سے لاعلم رہے ہیں، تو اتنے اہم فیصلے کس نے کیے اور ایسا کون سے میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کیا گیا، جس کی وجہ سے کارکنوں کو اتنی خفت اٹھانا پڑی۔ دوسری بات اگر خان صاحب کو ان تمام فیصلوں سے لاعلم رکھا گیا ہے، تو کیا ایسا انسان جس کو اپنی پارٹی کے اندرونی معاملات تک کا پتا نہیں، کیا وہ ایک ملک کو چلانے کا اہل ہے؟

عوامی نیشنل پارٹی خاموشی سے تاک میں بیٹھی یہ پورا منظر نامہ دیکھ رہی ہے۔

کچھ ایسی صورتحال متحدہ مجلس عمل کی بھی ہے۔ اتحاد میں موجود دو بڑی پارٹیاں جماعت اسلامی اور جے یو آئی دونوں نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں اور سوشل میڈیا پر دونوں پارٹیوں کے ایکٹیوسٹ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے تیر بر سا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہورہا کہ یہ سیخ پا کارکن مولانہ فضل الرحمان اور سراج الحق صاحب کے بنائے ہوئے مجلسِ عمل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ سکیں گے۔ یہاں بھی مذہبی جنونیت دم توڑ رہی ہے۔ بس مفادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم اللہ کے دین کی خاطر ہی اس میدان عمل میں موجود ہیں اور سیاست بھی اسلام ہی کی خاطر کر رہے ہیں، لیکن وہ اپنے عمل سے ثابت نہیں کر پا رہے۔ کیوں کہ ہر طرف اور ہر کیمپ میں یہاں بھی ایک کہرام سا مچا ہوا ہے۔ ناراض کارکن یہاں بھی ببانگ دہل اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن مرکزی لیڈر شپ نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ مجلسِ عمل کو کامیاب بنانے کے لیے دونوں طرف سے قیادت کو آگے آنا چاہیے تھا، لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ اب کارکن بھی لڑ رہے ہیں اور لیڈرز بھی مورچہ زن ہیں۔
ضلع بونیر کی تیسری سیاسی قوت عوامی نیشنل پارٹی خاموشی سے تاک میں بیٹھی یہ پورا منظر نامہ دیکھ رہی ہے۔ اس کے پاس ایکٹیو ٹیم ہے اور نہ ایکٹیو کارکن، بس پارٹی والے اللہ کے کرم کا انتظار ہی فر ما رہے ہیں۔ یہ حالات دیکھ کر ایک بات تو کنفرم ہے کہ اس الیکشن کے بعد بھی ضلع بونیر میں وہ تمام مسائل جوں کے توں رہیں گے جو برسوں سے حل طلب ہیں۔ سیاسی اکھاڑے میں موجود کھلاڑی زندگی بھر اسی طرح لڑتے رہیں گے، لیکن نقصان صرف عوام کا ہی ہوگا اور بونیر کی قسمت اسی طرح کسی مسیحا کے انتظار میں ان دم توڑتے نظریوں کی طرح خوار ہوتی رہے گی۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ’’میں ٹھیک، تو غلط‘‘ کی فلاسفی ہر روز ایک نئے فارمیٹ میں سامنے آتی ہے اور جن کو عوام کہا جاتا ہے، وہ اس فارمیٹ کے سحر میں گرفتار ہوکر خود کو اور اپنی قسمت تک کو بھول جاتے ہیں ۔
بلاشبہ بونیر مسائل کی آماجگاہ ہے۔ یہاں رمضان کے پورے مہینے میں پانی کا سخت بحران رہا۔ ایسے علاقے بھی یہاں موجود ہیں، جہاں اس ترقی یافتہ دور میں بھی پانی خرید کر پیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ اگرچہ انتہائی پریشان ہیں، لیکن وہ ابھی تک ان لوگوں کو سپورٹ کر رہے ہیں جن کو ایک دوسرے پر نفرت کے تیر چلانے سے فرصت نہیں ملتی۔ یہاں بجلی کا بھی ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح سخت بحران ہے، لیکن مجال ہے جو کوئی پوچھ لے۔ پارٹی کا غریب ورکر سارا دن اپنے لیڈر کے لیے دوڑتا رہتا ہے اور شام جب گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، تو بے شمار مسائل انتظار میں ہوتے ہیں۔ یہاں ہسپتال میں بھی درجنوں مسئلے ہیں، لیکن ’’میں ٹھیک، تو غلط‘‘ کی فلاسفی سے فرصت نہ ملنے کی وجہ سے کسی کا بھی ان مسائل کی طرف دھیان نہیں جاتا۔
یہ الیکشن بونیر کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ اگر یہاں کے عام لوگوں نے فرسودہ نظریوں کو بالائے طاق رکھ کر سوچا، تو کوئی شک نہیں کہ اس پسماندہ ضلع کی قسمت ہی بدل جائے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔