الحمدللہ، کچھ دن بعد رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے ساتھ بیشمار فیوض و برکات لا رہا ہے، لیکن اس سال رمضان کا مہینہ انتخابی سرگرمیوں کا بھی مرکز رہے گا اور بڑی بڑی افطار پارٹیوں میں لوگ اپنی انتخابی مہم بھی چلائیں گے۔ انتخابات کا ڈنکا بج چکا ہے اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے صدرِ مملکت کو 25 یا 26 جولائی کی تاریخ کی سفارش کر دی ہے۔ ویسے تو ہر انتخابات پچھلے سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن پچھلے سال کے اَن گنت واقعات کے بعد عام انتخابات 2018ء کی فضا مکمل طور پر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پورے ملک کی طرح ضلع سوات میں بھی اس بار گھمسان کا رَن پڑے گا اور دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ اگرچہ ایم ایم بحالی کے بعد مذہبی طبقے میں بھی جان نظر آتی ہے اور اک آدھ حلقے میں اے این پی بھی متحرک دکھائی دیتی ہے، لیکن مرکزی کردار ذکر شدہ دو پارٹیاں ہی ہیں۔
گوکہ انتخابات کے بارے میں اکثر سروے یا رائے غلط ثابت ہوتی ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر تقریباً تمام ممالک میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 22 فیصد ووٹرز انتخابی پرچی وصول کرنے سے لے کر ووٹ ڈالنے والے ڈبے تک پہنچنے میں ہی اپنی سوچ تبدیل کردیتے ہیں جو کہ بہت بڑا تناسب نظر آتا ہے اور پوری انتخابی نتیجے کو تبدیل کرنی کی صلاحیت رکھتا ہے،لیکن ہم آج اپنے ناقص علم کی بنیاد پر سوات کے تین قومی حلقوں پر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد سوات کے قومی حلقے دو سے بڑھ کر تین ہوگئے ہیں جب کہ صوبائی حلقوں میں بھی ایک نشست کا اضافہ ہوچکا ہے، جو کہ نہایت خوش آئند ہے، لیکن نئی حلقہ بندیوں نے پرانے کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر حلقے میں نئی صف بندیاں نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے NA-30 جو کہ اب NA-2 بن چکا ہے، کی بات کرتے ہیں۔ یہ حلقہ تحصیل بحرین، خوازہ خیلہ اور چارباغ پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے فتح محمد خان ریکارڈ یعنی 1954, 62, 70, 77, 8 5 اور 90ء (چھ بار سے زائد) کو ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔ 2 بار افضل خان لالا، ایک بار ڈاکٹر محبوب اور ایک بار شجاعت علی خان بھی یہاں سے ممبر بن چکے ہیں۔ 2002ء میں جماعت اسلامی کے فضل سبحان، 2008ء میں پیپلز پارٹی کے علاؤالدین اور 2013ء میں تحریک انصاف کے سلیم الرحمان بھی یہاں سے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ 2018ء کے انتخاب میں ایک بار پھر یہاں سے ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام قسمت آزمائی کریں گے جن کو سلیم الرحمان2013ء میں شکست دے چکے ہیں۔ امیر مقام کی موجودگی نے اس حلقے کو بہت اہم بنا دیا ہے اور انہوں نے ترقیاتی کاموں کی صورت میں مسلسل اپنی برتری قائم رکھی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی یہاں پر ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اعصاب شکن مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔

امیر مقام کی موجودگی نے NA 2 کو بہت اہم بنا دیا ہے۔ (Photo: The News International)

اس طرح NA-29 جو کہ اب نئے حلقوں NA-3 اور NA-4 میں تقسیم ہوچکا ہے، میں دلچسپ صورتحال نظر آتی ہے۔ یہاں سے ریاستِ سوات کے سابقہ ولی عہد میانگل اورنگزیب 1954, 58, 62, 70, 93 اور 97ء میں چھے بار سے زائد منتخب ہوچکے ہیں۔ دو بار شہزادہ امیر زیب، ایک بار شہزادہ امان روم، خالق داد خان اور میانگل عدنان اورنگزیب بھی یہاں سے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ 2002ء میں ایم ایم اے کے مولانا عبدالباعث صدیقی، 2008ء میں مظفرالملک اور 2013ء سے اب تک مراد سعید یہاں سے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ چوں کہ اب یہ حلقہ دو نئے حلقوں میں تقسیم ہوچکا ہے، اس لیے سب سے پہلے NA-3 کی بات کرتے ہیں۔

2013ء میں مراد سعید کو پورے سوات نے 88 ہزار ریکارڈ ووٹوں سے منتخب کرایا تھا، مگر انہوں نے سخت مایوس کیا۔ (Photo: Samaa TV)

این اے تین کا حلقہ تحصیل بابوزئی اور تحصیل بریکوٹ پر مشتمل ہے جہاں پر سوات کا مصروف ترین شہر مینگورہ بھی واقع ہے۔ اگر اس حلقے کی بات کی جائے، تو یہاں پر تحریک انصاف کی پوزیشن انتہائی مظبوط دکھائی دیتی ہے اور ان سے یہ حلقہ جیتنا میری نظر میں تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ MMA کی بحالی کے بعد مقابلے کی فضا تھوڑی سی نظر آتی ہے اور PMLN بھی تگڑا امیدوار اتارنے سے اپنی موجودگی ثابت کرسکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر اس سیٹ سے تحریک انصاف بھاری مارجن سے جیتتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

NA 3 کا حلقہ تحریک انصاف سے جیتنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ (Photo: aaj.tv)

اب آتے ہیں NA-4 کی طرف، یہ حلقہ تحصیل کبل اور تحصیل مٹہ پر مشتمل ہے۔ یہاں پر صورتحال کچھ یوں ہے کہ ن لیگ، تحریک انصاف اور اے این پی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ یہاں پر ن لیگ کو تھوڑی سے برتری حاصل ہے اور اس کی وجہ لوگوں کا مراد سعید سے نالاں ہونا ہے۔ راقم نے خود سیکڑوں لوگوں سے جنہوں نے 2013ء میں مراد سعید کو ووٹ دیا تھا اور پورے سوات نے اسے 88 ہزار ریکارڈ ووٹوں سے منتخب کرایا تھا، جب یہ سوال پوچھا، تو کوئی بھی شخص اس بار مراد سعید کو ووٹ دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں سے ن لیگ کے امیدوار فیروز شاہ خان ایڈوکیٹ کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔
یہ تو میری ناقص رائے تھی جو کہ غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے، کیوں کہ سوات کے لوگ کسی بھی وقت کچھ بھی کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور کوئی بھی غیر متوقع سرپرائز کے چانسز بھی موجود ہیں۔ ان شاء اللہ، اگلے ہفتے صوبائی حلقوں پر بات کریں گے۔ یار زندہ صحبت باقی!

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔