مملکت خداد کو جہاں اپنے طاقتور باسیوں کے کرتوتوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے (بلکہ کچھ تو نشانۂ عبرت بنانے پر تُلے ہوئے ہیں)، وہاں اس ملک میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی نا انصافی کی وجہ سے جنم لینے والی مختلف تحاریک نے سرکار کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ سانپ اور نیولے کے اس کھیل میں انتہائی اہم مسائل کو بصد ہوش و حواس پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

اپنے شہریوں کے مسائل کو کسی مربوط ترقیاتی منصوبہ بندی کے تحت حل کرنے کی بجائے یہ ریاست عالمی بنیوں کے سرمایہ کو بڑھانے والے منصوبوں کا ذکر بلکہ تشہیر کر کے عوام کو ترقی کی نوید سناتے نہیں تھکتے۔ حالانکہ ان منصوبوں کا اس ملک کے عوام کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑتا نظر نہیں آ رہا۔ دیگر مسائل کے علاوہ ایک اہم مسئلہ پاکستان کے تمام حصوں میں پانی کی قلت خطرناک حد تک بڑھ جانا ہے۔ پانی کی قلت سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جب کہ اس ملک کی صرف تیس فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔  لیکن میرا خیال ہے کہ سوات کے کسی بھی شہری کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ دیہات ہوں یا شہر، ہر کوئی پانی کی عدم دستیابی کا رونا رو رہا ہے۔ پانی کی قلت میں جہاں قومی اداروں کی غفلت کار فرما ہے، وہاں ہم عوام بھی اس مسئلہ کے حوالہ سے دیگر مسائل کی طرح اندھے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔

مینگورہ شہر میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقی نے مینگورہ شہر کے باسیوں کے لئے پینے کے صاف پانی کا ایک منصوبہ تقریباً سولہ کروڑ روپے کی لاگت سے سال 2014ء میں اس وقت شروع کیا، جب سوات میں خشک سالی تھی اور لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے۔ اس منصوبے کے تحت مینگورہ شہر اور اس کے قرب و جوار میں ایک سو بیس پانی کے پمپس لگانے تھے، جس میں آج تک نصف ہی نصب کئے جا سکے ہیں۔ یہ ایک سال کا منصوبہ چھے سال گزرنے کے باوجود ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔ دو سال پہلے مینگورہ شہر کے نکاسئی آب اور آبنوشی کو بہتر انتظام کاری کے ذریعے چلانے کے لئے واسا کی بنیاد رکھی گئی، جو شروع دن سے ہی مسائل کا شکار ہے۔ اس کمپنی کے سی ای او کو جعلی ڈگری کیس میں اپنے منصب سے ہٹایا گیا اور یوں عدالتی جنگ شروع ہوئی، جو آج تک جاری ہے۔ جون دو ہزار پندرہ میں خیبر پختون خوا حکومت نے اس کمپنی کو قائم اور رجسٹر کرکے معقول مالی وسائل بھی دلائے، لیکن اس کمپنی سے مطلوبہ کام نہیں لیا جا سکا۔ مینگورہ شہر کی مرکزی سڑکوں، اور گلیوں کے اندر پانی کے پائپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نالیاں زیادہ تر بند ہیں۔ بعض محلّوں میں سانس لینا تک مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گندگی کو گلی محلوں کے اندر جمع کیا جاتا ہے، جسے ہفتہ میں صرف ایک بار ٹھکانے لگایا جاتا ہے جب کہ باقی ماندہ ایام میں یہ گندگی عوام کے نتھوں اور ذہنوں کو ’’معطر‘‘ رکھنے کے لئے پڑی رہتی ہے۔

عوام کو اپنا رویہ تبدیل کرکے اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے اور پانی کے ضیاع کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ (Photo: The News International)

مینگورہ شہر نو یونین کونسلوں پر مشتمل ہے، جس کی تذئین و آرائش کے لئے حال ہی میں ایک ارب سے زائد کا بجٹ دیا گیا ہے۔ اس نئے منصوبے کے تحت قمبر بائی پاس کی تعمیرِ نو پر کروڑوں کی رقم خرچ کی جا رہی ہے جب کہ یہ سڑک چند سال قبل تعمیر ہوئی تھی اور ٹھیک حالت میں تھی۔ منصوبے میں شہر کی دیواروں پر نقش و نگار کے لئے بڑی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ مینگورہ شہر سے اسلام پور گاؤں تک دو سو ایک ملین روپے سے تعمیر ہونے والی سڑک کے باقی کام کو اس منصوبے کی تحت مکمل کیا جا رہا ہے لیکن پانی کے نظام کی بہتری کے لئے کوئی قابلِ ذکر سکیم اس میں شامل نہیں ہے۔

شہر سے نکل کر گاؤں میں دیکھا جائے، تو ہر گاؤں کی گلیوں میں پلاسٹک پائپ کے جال بچھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے راستوں پر چلنا محال جب کہ نکاسئی آب کی نالیاں بند ہیں۔ یہ پائپ سیاسی اور حکومتی افراد ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ فارمولے کے تحت عوام کو پاکستان کی آزادی کے اگلے دن سے دے رہے ہیں۔ تقریباً تمام گاوؤں میں پانی کی سرکاری ٹینکیوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی کافی مقدار گندی نالیوں میں گر کر ضائع ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کا نظام ہر جگہ درہم برہم ہے۔ گلی کوچوں میں جگہ جگہ پلاسٹک کے پائپ کھلے چھوڑے گئے ہیں،جو ضیاع کا باعث ہیں۔ ہمارے ہاں روایت یہ ہے کہ امراض بڑھ جائیں تو ہسپتال، ادویہ، مریضوں کے لئے بیڈز وغیرہ کے انتظام پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، امراض کی روک تھام کے بارے میں کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ عین اسی طرح جب لوگ پانی کی قلت کی شکایت کرتے ہیں، تو انہیں پانی کی بجائے پائپ دئے جاتے ہیں۔ عوام میں پانی کی بچت بارے شعور کی کمی ہے۔

پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کو مدِنظر رکھتے ہوئے سرکار کو چاہئے کہ پانی کے دانش مندانہ استعمال اور بچت کے لئے عملی اقدامات کرے۔ پانی کی سکیموں کی بہتر انتظام کاری میں علاقائی حکومتیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، بشرط یہ کہ ان کو ادارتی طور پر اس کام میں شامل کیا جائے۔ عوام کو اپنا رویہ تبدیل کرکے اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے اور پانی کے ضیاع کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بصورتِ دیگر، بہت جلد سوات پانی کی شدید قلت سے دوچار ہوگا اور ہم بے فکر باسی چولستان کے صحرا کے خانہ بدوشوں کی طرح پانی کی ایک ایک بوند کے پیچھے اپنے اہلِ خانہ سمیت رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوں گے۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔