معاصر قومی اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق غریبوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے دعویدار ادارے ’’بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام‘‘ میں اربوں روپے کی مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔ چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ماروی میمن نے جعلی شناختی کارڑوں کے ذریعے اربوں روپے لوٹنے والے افسران کے خلاف چار رُکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی، مگر اس کمیٹی کی تحقیقات کے راستے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سیکرٹری عمرحمید خان حائل ہوگئے اور آٹھ ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کمیٹی اپنی تحقیقات شروع نہیں کر سکی۔
اخبارات میں ہرروز کرپشن، لاقانونیت اور اقربا پروری کی داستانیں چھپتی رہتی ہیں اور اب تو پاکستانیوں نے اس بااثر طبقے کی لوٹ مار کو معمول سمجھ کر اہمیت دینا بھی چھوڑ دیا ہے، لیکن یہ خبر ہمارے بدترین معاشرے کی زبوں حالی کی خوفناک تصویر ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بیرونی ممالک سے آنے والی امداد پر زیادہ انحصار کرتا ہے اوراس ادارے کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو امداد دی جاسکے۔ غریب خواتین کو فنی تربیت دے کر اتنی امداد دی جائے کہ وہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کر کے معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرے اور انہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
ایک مخصوص مافیا جو ہماری بنیادوں میں بیٹھ گیا ہے اور جونک کی طرح اس معاشرے سے چمٹا ہوا ہے، اس مافیا کی ہولناک داستانیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں جنہوں نے قومی بنکوں کو بے دردی سے لوٹا اور بھاری بھر کم قرضے ہڑپ کر گئے۔ قومی اداروں میں لوٹ کھسوٹ کی نئی تاریخ رقم کرگئے، مگر مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ بہروپیے، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بے بس لوگوں کے حق پر بھی ڈاکا مارنے سے گریز نہیں کریں گے۔ تُف ہے اس اشرافیہ پر جو خود تو اس ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہے۔ غریبوں کو غریب سے غریب تر کرنے کا مکروہ کھیل جاری ہے لیکن دووقت کی روٹی کو ترستے ان مجبور اور لاچار لوگوں پر اگر بیرونی دنیا رحم کھا کر کوئی امداد دیتی ہے، تو یہ اس کو بھی لوٹنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ ہمارے معاشرے کی گراوٹ کی وہ حد ہے کہ جس کے بعد صرف کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی روح رواں پیپلز پارٹی کے رہنما فرزانہ راجہ تھیں،جنہوں نے اپنے دور میں اس ادارے کو فعال کرنے کے لیے بے پناہ کوششیں کی تھیں اور اُنہی کی کوششوں سے یہ ادارہ اپنے قدموں پرکھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے پسے ہوئے طبقات کی بے پناہ مالی امداد کرکے نیک نامی کمائی۔

سَوا لاکھ سے زائد جعلی شناختی کارڈوں کے ذریعے لوٹ مار کرنے والے اس گروہ کو بے نقاب کرنا اشدضروری تھا۔

موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ماروی میمن کو اس پروگرام کا چیئرپرسن بنایا، تو انہوں نے بھی ماضی کی روایات کو زندہ رکھا اور اپنی پیش رو کی طرح اس ادارے کی بہتری کے لیے دن را ت کام کیا۔ ان کی سخت محنت کانتیجہ یہ نکلا کہ بیرونی امدادی اداروں نے نہ صرف اپنے اطمینان کا اظہار کیا بلکہ بعض اداروں نے اپنی امدادی رقم بھی پہلے سے زیادہ کر دی، مگر ہائے افسوس کہ سیاستدانوں کی اس محنت کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں موجود کالی بھیڑوں نے غارت کر دیا۔
سَوا لاکھ سے زائد جعلی شناختی کارڈوں کے ذریعے لوٹ مار کرنے والے اس گروہ کو بے نقاب کرنا اشدضروری تھا اور ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ سو کے قریب ملازمین اور افسران اس غبن میں سہولت کار تھے، لیکن چوں کہ بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی اس کرپشن کے پسِ پشت سیکرٹری بی آئی ایس پی عمر حمید خان کا اپنا ہاتھ تھا، اس لیے اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات کی ہر کوشش ناکام بنا دی گئی اور تفتیش کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان واقعات کے بعد چیئر پرسن ماروی میمن اور سیکرٹری عمر حمید خا ن کے درمیان سخت تنازعہ ہے، مگر واقفانِ حال کہتے ہیں کہ سیکرٹری کا پلہ بھاری ہے۔ چوں کہ اس کو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ایک بااثر بیوروکریٹ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ اس لیے مرغی کی وہی ایک ٹانگ کے مصداق معاملہ جوں کا تو ں ہے۔
قارئین، سوال یہ ہے کہ اس ملک میں آئے روز احتساب کے ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں۔ انصاف کی سب سے بلند مَسند پر تشریف فرما شخصیت پورے جوش کے ساتھ یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ اب عام آدمی کی شنوائی ہو گی۔ عدالت عظمیٰ کہیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے اپنازور لگاتی ہے اور کہیں بڑے شہروں کی صفائی نہ ہونے، ہسپتالوں کی حالت زار، میڈیکل کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی ہوش رُبا فیسوں پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے، لیکن حیرت ہے کہ اس ملک کے انتہائی کمزور طبقے جس کی چند ہزار روپے کی امداد بھی یہ مگرمچھ ڈکار جاتے ہیں، کے حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔
سُنا ہے کہ سیکرٹری بی آئی ایس پی کے سیاہ کارناموں پر کئی دفعہ بازپرس کی نوبت آئی اور ایک آدھ دفعہ ان کی ٹرانسفر کے احکامات بھی ہوئے مگر چوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور غلاظت کی اس کمائی کی باقاعدہ بندر بانٹ ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی ہونے کا وقت آتا ہے، ان کے حصہ دار مہربان خم ٹھوک کر میدان میں اُترآتے ہیں۔ ایک ایسا ملک کہ جہاں غریب کی کوئی نہیں سنتا، غریبوں کی امداد کے لیے بنائے گئے ادارے کی لوٹ مار پر کون ایکشن لے گا؟

………………………………………………

لفظونہ اتنظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔