زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے، یعنی پانی ہی سے زندگی کی بقا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے ہر جان دار کو زندہ کیا۔‘‘
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے جو کہ ہماری یادداشت کا زمانہ ہے، روئے زمین پر آبادی کم تھی، تو اس مناسبت سے تعمیرات کی بہتات بھی نہ تھی۔ قطعاتِ ارض کھلے اور وسیع تھے اور گھنے جنگلات بھی موجود تھے۔ ہر جگہ چشمے، ندیاں اور صاف و شفاف پانی کے دریا بہتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ مینگورہ کی موجودہ ندی جو کہ اب ایک گندا نالہ ہے، سے باپردہ خواتین گاگروں میں کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کے لیے صاف اور شفاف پانی لے جاتی تھیں۔ اس ندی کے کنارے ٹھنڈے میٹھے اور صاف پانی کے محفوظ چشمے بھی ہوتے تھے۔ یہ حال سارے سوات کا تھا۔ کیوں کہ ہر جگہ کافی مقدار میں پانی موجود اور دستیاب تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں پانی کے کافی ذخائر اور ذرائع موجود تھے، لیکن جب انسانی آبادی بڑھنے لگی، تو نتیجے میں تعمیرات میں بھی اضافہ ہوا۔ ہمیں آج بھی وہ جگہیں نظر آتی ہیں، جہاں ٹھنڈے پانی کے چشمے تھے۔ آج اُن چشموں پرمکانات اور مارکیٹیں تعمیر کی گئی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنگلات اور کشادہ و کھلے قطعاتِ ارضی ختم ہوگئے۔ لہٰذا پانی کے ذخائر اور منابع بھی ختم ہوگئے۔ آج وہ چشمے ہیں نہ جنگلات اور نہ سبزہ زار ہی ہیں۔ چناں چہ فی زمانہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قلت آب کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔ یہاں تک کہ زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے جو کہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

شریعت اسلامی کے فقہا کا قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان لبِ دریا بھی وضو کر رہا ہو، تو اُسے چاہیے کہ اس وقت بھی پانی کے استعمال میں اسراف سے بچے۔ (Photo: nit.pt)

ماہرین کے مطابق آج دنیا کو قلتِ آب کا شدید مسئلہ درپیش ہے اور مستقبل میں یہ گھمبیر شکل اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پانی کو صرف اپنی ضرورت کے وقت اور ضرورت ہی کے مطابق استعمال کریں۔ اس کے استعمال میں نہایت احتیاط کرکے اسراف سے بچیں۔ جیسا کہ ہم سب خوب جانتے ہیں کہ پانی سے ہر ذی روح کی بقا ہے، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ وطنِ عزیز میں لوگ بھی خطرات جاننے کے باوجود پانی کا بلاضرورت اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص گاڑی دھورہا ہو، تو پانی کا نل مسلسل بہہ رہا ہوتا ہے اور جتنا اس کا بس چلے پانی ضائع کرتا ہے۔ خواہ گاڑی اچھی طرح صاف کیوں نہ ہو جائے۔ اسی طرح روز گھروں اور لانڈریوں میں کپڑے اور برتن وغیرہ دھوتے وقت بے دریغ پانی ضائع کیا جاتا ہے۔ پودوں کو پانی دیتے وقت اور آب پاشی کے وقت بھی زائد از ضرورت پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ گلی کوچوں،پارکوں، ریلوے سٹیشنوں، بس سٹاپوں، ہوٹلوں اور حماموں میں بھی لوگ عموماً پانی کے نلوں کو کھلا چھوڑتے ہیں اور پانی جیسی بے مثال نعمت کو ضائع کرتے ہیں۔ حالاں کہ شریعت اسلامی کے فقہا کا قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان لبِ دریا بھی وضو کر رہا ہو، تو اُسے چاہیے کہ اس وقت بھی پانی کے استعمال میں اسراف سے بچے۔ غلط اور کرپٹ نظام کی بدولت وطنِ عزیز کے شہروں میں میونسپل کمیٹیوں، ٹی ایم ایز اور کارپوریشنوں کی طرف سے عوام کو آب رسانی کے لیے جو پائپ لائن بچھائی گئی ہوتی ہے، اس میں استعمال ہونے والا پائپ عموماً غیر معیاری ہوتا ہے اور جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر پانی کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔ وطنِ عزیز کے دوسرے علاقوں کا تو ہمیں پتا نہیں لیکن مینگورہ شہر میں آج ایک خطرناک رجحان نے سر اُٹھایا ہے، وہ یہ کہ ہر چھوتے گھر اور تقریباً دسویں دکان، منڈی اور ہوٹل میں بورنگ (سورنگ کنواں) کھودا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ تھوڑے پانی سے گزارہ نہیں کرسکتے، لیکن اپنے آنگن میں پانی کے ذخیرے ڈھونڈتے ہیں۔ اس سے زیرِ زمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے اگر یہ ذخیرہ ہماری اسی طرح لاپروائی سے ختم ہوا، تو یقین کریں کہ لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بھول جائیں گے۔ یہ ذمہ داری ٹی ایم ایز اور ضلعی حکومت کی ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں سمجھائیں کہ آخر مسلسل بورنگ کا کتنا بھیانک انجام ہوگا؟ کیوں کہ پاکستان سمیت ساری دنیا میں قلتِ آب کا سخت مسئلہ درپیش ہے۔ اگر ہمارا یہ طرزِ عمل اسی طرح جاری رہا، تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے بلا حاجت زیادہ پانی استعمال کرنے سے گریز کریں اور کم سے کم پانی سے کام چلانے کی عادت ڈالیں۔ یہ عمل ہمارا ’’قومی موٹو‘‘ بھی ہونا چاہئے۔
قارئین، ہر سال 22 مارچ کو ساری دنیا میں ’’پانی کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، اس روز عوام کو ترغیب دی جاتی ہے کہ قلتِ آب کے پیشِ نظر پانی کے بے جا استعمال کو کنٹرول کیا جائے اور پانی بچانے کی حتیٰ الوسع کوشش کی جائے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔