ماحول کے لغوی معنی ’’اردگرد‘‘ کے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو جاندار پر اپنا اثر رکھتی ہو، اُسے ماحول کہتے ہیں۔ اس تعریف کے تناظر میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا و کائنات ہی ہمارا ماحول ہیں۔ اس ماحول کو ہرصورت پاک وصاف رکھنے کی ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ قحط اور جنگوں کے بعد دنیا کو درپیش سنگین ترین مسئلہ ماحولیات کی آلودگی ہے۔ قحط اور جنگوں کے اثرات و نتائج فوری طور پرمرتب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ ماحولیاتی آلودگی کے اثرات و نتائج انسانوں پر آہستہ آہستہ، بتدریج اور انفرادی سطح پر نموارہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
دنیا میں صنعتی انقلاب نے اگرچہ ایک طرف انسان کو بعض سہولیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، تو دوسری طرف صنعتوں سے ماحولیات پر مضر اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ صنعتوں سے خارج ہونے والے زہریلے مادوں کے علاوہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس اور کچرے کے جلنے سے اُٹھنے والا دھواں فضا کو زہر آلود بنانے کے ذرائع میں شامل ہے۔ فضا کو آلودہ بنانے کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں، تاہم فضا کو آلودہ بنانے میں ہمار اکردار بھی کوئی کم نہیں ہے۔
صنعتوں سے پھیلنے والی فضائی آلودگی سے انسانوں کو پھیپھڑوں کے امراض، جلدی بیماریاں، کینسر، سانس کی بیماری اور یرقان کے علاوہ دیگر خطرناک موذی امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ضلع ملاکنڈ کے پسماندہ علاقہ یونین کونسل پلئی درہ میں ایک سیمنٹ فیکٹری کے ذمہ داروں نے فیکٹری لگانے کے اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ سیمنٹ فیکٹری کا قیام موضع پلئی درہ کی تباہی و بربادی کے نوحے سے کم نہیں۔ اس حوالہ سے مذکورہ سیمنٹ فیکٹری کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر فیکٹری لگا رہی ہے۔ حالاں کہ ان کا یہ دعویٰ سراسر بے بنیاد، من گھڑت اور گمراہ کن ہے۔ شنید ہے کہ مذکورہ سیمنٹ فیکٹری انتظامیہ خیبر پختونخوا حکومت (وزیر اعلیٰ پرویز خٹک) کے توسط سے مالکانِ اراضی سے بزور زمینیں چھین رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیکٹری بنجر اراضی پر قائم کی جارہی ہے جو حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ اس حوالہ سے گذشتہ حکومت نے اراضی کو سیراب اور آباد کرانے کے لیے بائیزئی ایری گیشن کنال کے ذریعے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا تھا۔ بائیزئی ایری گیشن کنال سے آٹھ سو جریب اراضی کی سیرابی کا پروگرام تھا، جس سے سیکڑوں افراد کو روزگار ملنے کی توقع تھی، لیکن کیا کیا جائے کہ مذکورہ سیمنٹ فیکٹری انتظامیہ اور حکومت خیبر پختونخوا (وزیر اعلیٰ پرویز خٹک) لوگوں سے روزگار چھینے کے درپے ہیں۔

صنعتوں سے پھیلنے والی فضائی آلودگی سے انسانوں کو پھیپھڑوں کے امراض، جلدی بیماریاں، کینسر، سانس کی بیماری اور یرقان کے علاوہ دیگر خطرناک موذی امراض لاحق ہوتے ہیں۔ (Photo: DW)

اس طرح سیمنٹ فیکٹری کی انتظامیہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فیکٹری کے قیام سے علاقے میں روزگار کی فراہمی یقینی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ سیمنٹ فیکٹری میں چند افراد کو روزگار کے مواقع ہاتھ آسکیں، لیکن علاقے میں سیمنٹ فیکٹری بنانے سے علاقے پر جو مضر اثرات مرتب ہوں گے، اُن کا کیا ہوگا؟
سیمنٹ کی تیاری میں علاقے کے پہاڑوں میں موجود مخصوص قسم کے پتھر کو خام مال کے طور پر استعمال کیا جائے گا جب کہ پتھر نکالنے کے لیے بارودی مواد کا بے دریغ استعمال ہوگا۔ ان بارودی مواد کے دھماکوں سے فضا میں ناقابل برداشت حد تک دھواں اوربارود کے زہریلے ذرات شامل ہوکر فضائی آلودگی کا الگ سے سبب بنیں گے۔ ان پتھروں کو فیکٹر ی تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا استعمال بھی کیا جائے گا، جس کی وجہ سے فضا میں گرد و غبار کا ایک طوفان اُٹھے گا۔ پھر پتھروں کو جلانے کے لیے فیکٹری میں ہزاروں ٹن کوئلہ بھی استعمال ہوگا۔ کوئلے کو فیکٹر ی تک لانے کے لیے روزانہ درجنوں ٹرکوں کا آنا جانا لگا رہے گا۔ ٹرکوں کے انجن سے نکلنے والا دھواں یا کاربن ڈائی اکسائیڈ اور اُڑنے والی گرد و غبار سے ماحول الگ سے آلودہ ہوگا، جس سے انسانی و حیوانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ جنگلات، باغات اور زرعی اراضی پر مضر اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ ہوا چلنے سے فیکٹری میں سٹور شدہ کوئلے کے ذرات فضا میں شامل ہونے کا اندیشہ الگ سے ہے، جو آگے چل کر موذی امراض کا سبب بنیں گے۔ ایک سنگین خطرہ یہ بھی ہے کہ ایک کلو گرام سیمنٹ بنانے کے لیے کوئلہ جلنے سے ایک کلو گرام کاربن ڈائی اکسائیڈپیدا ہوگی جو آگے چل کر ہوا میں شامل ہوگی۔ اگر سیمنٹ فیکٹری میں سیمنٹ بنانے کی گنجائش ہزاروں ٹن روزانہ ہے، تو اسی طرح روزانہ ہزاروں ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس فضا میں شامل ہوکر ہوا کو زہر آلود بنائے گی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سیمنٹ بنانے کے لیے ایک ہزار چھے سو ڈگری سنٹی گریڈ درجۂ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ہزار چھے سو ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت کی پیدائش سے علاقے کے درجۂ حرارت پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ اس طرح فیکٹر ی میں سیمنٹ بنانے کے لیے فیکٹری کو پانی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق زیرِ زمین پانی کی موجودگی کا کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے اور اس قسم کے سروے کے بغیر سیمنٹ فیکٹری لگاناکہاں کی عقل مندی ہے؟ چوں کہ یونین کونسل پلئی درہ ایک بارانی علاقہ ہے اور وہاں زیرِ زمین پانی کی سطح پہلے سے بہت کم ہے۔ ایسے میں یہ نکتہ سمجھے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ فیکٹری میں پانی کے زیادہ استعمال سے وہاں زیرِ زمین پانی کی سطح مزید گر جائے گی۔ نتیجتاً جس طرح راس کٹاس مندر کی ہزاروں سال پرانی جھیل سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے خشک ہوگئی اور بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کا از خود نوٹس لینا پڑا، ٹھیک اُسی طرح یہاں بھی ہونے جا رہا ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے گرنے سے علاقے کے مکین کو نہ صرف اپنی ضروریاتِ زندگی بلکہ زرعی زمینوں کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہوگا۔ بہت جلد علاقہ ایک صحرا کا منظر پیش کرے گا، جس کی وجہ سے وہاں کے مکین نقلِ مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔

سیمنٹ بنانے کے لیے ایک ہزار چھے سو ڈگری سنٹی گریڈ درجۂ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ہزار چھے سو ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت کی پیدائش سے علاقے کے درجۂ حرارت پر کیا اثر پڑے گا؟ (Photo: Natural Living Ideas)

ہاں، یہ ہے کہ مذکورہ سیمنٹ فیکٹری کی انتظامیہ نے فیکٹری سے خارج ہونے والے زہریلی گیس (کاربن ڈائی اکسائیڈ) کو جذب کرنے کے لیے علاقے میں پندرہ ہزار پودے لگانے کا اعلان کر رکھا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ کا یہ اعلان علاقے کے مکینوں کو ’’لالی پاپ‘‘ دینے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ سیکڑوں ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرنے کے لیے کروڑوں درختوں کی ضرورت ہوگی، جب کہ اتنی فضائی آلودگی میں درختوں کی بقا بھی بہت مشکل ہوگی۔
کسی نے سوچا ہے کہ روزانہ ہزاروں ٹن بننے والے سیمنٹ کو دوسرے علاقوں کو منتقل کرنے کے لیے درجنوں ٹرالزاور ٹرک بھی استعمال ہوں گے، جن کی آمد و رفت کی وجہ سے رابط سڑکیں ہر وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی جب کہ گاڑیوں کے انجنوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس فضا کو مزید آلودہ کرے گی۔
حاصلِ نشست یہی ہے کہ اس سیمنٹ فیکٹری کے مضر اثرات سے صرف موضع پلئی در ہ کے ہزاروں نفوس پر مشتمل آبادی ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ اس کے علاوہ ملحقہ موضع زور منڈی، شیر خانہ،بازدرہ بالا،بازدرہ پائیں، مورہ بانڈہ، ضلع مردان کے موضع بائیزو خرکی، الو، قاسمی، کوئی برمول اور دیگر علاقوں کی لاکھوں کی آبادی بھی متاثر ہوگی۔ مروجہ قانون کے مطابق صنعتی زون اور فیکٹریاں رہائشی علاقوں سے دور بنائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا قانون رائج ہے۔ یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یونین کونسل پلئی درہ میں سیمنٹ فیکٹری قائم کرنے میں مذکورہ سیمنٹ فیکٹری انتظامیہ سے زیادہ خیبر پختونخوا کی حکومت یعنی خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب سب سے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ میرے ناقص علم کے مطابق پلئی درہ میں سیمنٹ فیکٹری کا قیام وہاں کے مکینوں کے لیے موت کے پروانے سے کم نہیں۔ میری اس حوالہ سے ذکرہ شدہ تمام علاقوں کے عوا م سے درخواست ہے کہ وہ لگائے جانے والی اس سیمنٹ فیکٹری کے حوالہ سے اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرائیں، تاکہ آنے والی نسلیں ہم سب کو معتوب نہ ٹھہرائیں۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔