نہال ہاشمی 1960ء کو پیدا ہوئے۔ کیریئر کی آغاز وکالت سے کی اور بعد میں سیاست کو بطورِ پیشہ اپنایا۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران میں وہ مسلم لیگ ن کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ پہلے مسلم لیگ ن کے گورنر سندھ کے قانونی مشیر، مسلم لیگ ن کراچی کے صدر اور بعد میں اسی پارٹی کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 2015ء میں جنرل الیکشن کے ذریعے پنجاب سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ بطورِ سیاست دان وہ ایک گرم مزاج انسان ہیں، لیکن اس کی یہ گرم مزاجی اس کے لیے دردِ سر تب بنی، جب سابقہ وزیراعظم نواز شریف کا احتساب شروع ہوا اور صاحب نے تفتیشی اداروں اور خاص طور پر عدلیہ کو جو کہ وہ ادارہ ہے، جس سے انہوں نے خود بھی رزق کھایا، آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی۔ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’نواز شریف کا حساب لینے والوں کا ہم یومِ حساب بنا دیں گے۔‘‘ اس بیان کے بعد اس کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی اور بعد میں 5 سال کے لیے نااہل اور ایک مہینے کے لیے جیل بھیج دیے گئے۔جیل میں ایک ماہ کی مدت پوری کرنے کے بعد اسے کوئی خاص سیاسی کارکن لینے نہیں آئے، جو کہ اس کے کیے کو غلط بتانے کا ایک طرح سے سگنل تھا، لیکن صاحب نے تو اس سوچ کا رُخ ہی بدل دیا اور کہا کہ پارٹی میں تو اس کی قدر اور بڑھ گئی ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں اب قدر و قیمت ملکی اداروں کو برا بھلا کہنے پر بڑھتی یا گھٹتی ہے۔
یہ ڈراما یہی پر ختم ہوجاتا اگر ایک صحافی ان سے اپنے کیے پر شرمندگی کے بارے میں نہ پوچھتا، جس کے جواب میں یہ سننے کو ملا کہ اُسے تو اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے سزا دلا کر عدالت نے کوئی انصاف کا بول بالا نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ صاحب کو ایک مہینے بعد یاد آیا کہ جو لفظ میں نے استعمال کیا تھا یعنی ’’حساب‘‘ اس کا تو مطلب ’’نیب‘‘ بھی نکلتا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد کہا کہ میرے سخت الفاظ تو نیب افسران کے لیے تھے، نہ کہ عدالت کے لیے۔
قارئین، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مؤقف بالکل درست نہیں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہے، تو انہوں نے اپنے بیان کی پہلے کیوں وضاحت نہیں کی؟ اور اگر یہ درست ہے بھی، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہاشمی عدالت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر اداروں کو آڑے ہاتھوں لینے سے بھی بالکل نہیں کتراتے۔ ایسا ہونے کے نتیجے میں ایسا کرنے والوں کو نہ تو تاحیات نااہل کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، تاکہ پھر کوئی قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے ہزار بار سوچے اور ملکی اداروں کا ہر حال میں عزت کرے جو کہ ایک اچھے شہری ہونے کی نشانی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کل کو اس جیسے بہت سارے نہال ہاشمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو ملک کے کسی بھی معزز اور مقدس ادارے کو برا بھلا کہنے اور اسے چلانے والوں کو موت کی دھمکی دینے سے نہیں کترائیں گے جوکہ ملکی سلامتی اور بقا کے لیے خطرہ ثابت ہونے کا اشارہ ہے۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔