قصور حضرت بابا بلھے شاہؒ اور بابا کمال چشتیؒ کا شہر ہے۔ قصور کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ قدرت نے اسے ہرطرح کا اناج اُگانے کی نعمت سے نوازا ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ کی نگری سے ہر پریشان انسان فیض حاصل کرتا ہے۔ عقیدت مند ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر ایک طرح سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بابا کمال چشتیؒ کی قبر تک پہنچنے کے لئے سیڑھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مزار مین روڈ پر موجود ہونے کی وجہ سے ہر عقیدت مند سلام کئے بغیر نہیں جاتا۔
میرا بھی تعلق قصور سے ہے۔ میراگاؤں تلونڈی، شہر سے 47 کلومیٹر دور ہے۔ میں جب بھی لاہور سے گاؤں جاتا ہوں، تو حضرت بابا بلھے شاہؒ کے دربار پرحاضری دے کر جاتا ہوں۔ کام کاج سے فری ہو کر جب قصور کا چکر لگتا ہے، تو ذہنی سکون بھی ملتا ہے ۔
پھولوں کے اس شہر کو نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ منگل کو قصور میں لاپتا ہونے والی آٹھ سالہ زینب کی تشدد زدہ لاش ان کے گھر سے دو کلومیٹر دور ملی تھی۔ پورا ملک زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر غم زدہ ہے، ہر طرف پریشانی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ قصور کے پولیس حکام کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ اس وقت بچوں کے اغوا اور ریپ کے بارہ واقعات درج ہیں، لیکن 200 سے زائد پولیس افسران پر مشتمل یہ ٹیم اب تک ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ’’نامعلوم شخص‘‘ (یا شائد گروہ) کی کارروائیوں کا پتا لگانے میں ناکام ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب تک ان مقدمات کی مکمل جانچ پڑتال تک نہ کی جاسکی ہے۔

زینب کی فائل فوٹو (Photo: Dawn)

زینب کا آخری ہوم ورک چیک کیا گیا، تو دل خون کے آنسو روتا رہا۔ اس کو انصاف دلانے کی خاطر پورا شہر سراپا احتجاج ہے۔ میرا سلام ہے قصور کے باشعور عوام کو جنہوں نے حق کی خاطر آواز اٹھائی۔ احتجاج میں اب تک دو مظاہرین بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کیا ایسے ہی ہماری بہن اور بیٹی ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی رہے گی؟ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ والدین بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر نہ جانے دیں؟ میرے ناقص خیال سے اب ہمیں اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
زینب کو زیادتی اور قتل کر دینے کے بعد ڈھیر سارے سوال جنم لے چکے ہیں۔ اس حوالہ سے قصور کا ہر شہری انصاف کا طلب گار ہے۔ پوری فضا سو گوار ہے۔ یہ ہمارے لیے کسی المیہ سے کم نہیں کہ زینب کے والد نے اپنے آپ کو ان الفاظ پر مجبو کیا کہ سکیورٹی تو صرف حکمرانوں کے لیے ہے، ہم تو صرف کیڑے مکوڑے ہیں۔
دوسری طرف ملک میں جنسی تعلیم دینے والے اداروں کو روک دیا گیا ہے۔ اگر بچوں کو یہ تعلیم دی جاتی، تو شاید حالات یہ رُخ اختیار نہ کرتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر پاکستان میں کو ئی شخص سوسائٹی کے لیے اچھا کام کر تا ہے، تو یا تو اُسے روک دیا جاتا ہے، یا پھر منظرِ عام سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ جس طرح بابا بلھے شاہ کے شہر کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ملک کا کوئی دوسرا شہر بھی ایسے ہی کسی سانحہ کا شکار نہ ہو۔
میرے ناقص ذہن کے مطابق اگر ہم اپنے بچوں کو اس حوالہ سے تعلیم دیں،تو ان کو شعور ملے گا۔ والدین کو اکثریہ خدشہ درپیش رہتا ہے کہ جنسیات کے بارے میں گفتگو ان کے بچوں میں مزید تجسس پیدا کرنے کا مؤجب ہوگی۔ ہم گھر میں قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے بچوں کو ان کے جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ اسلام میں پاکیزہ زندگی کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ اسلام نے حجاب کا طریقہ بتایا ہے، بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ بتایا ہے، نکاح و طلاق کے امور کو تفصیل سے ڈسکس کیا گیا ہے۔
بس اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر انہیں جنسی تعلیم دیں، انہیں وقت دیں، انہیں وقعت دیں، انہیں سنیں۔ ورنہ کل کو ہماری زینب کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔