امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر سالِ نو 2018ء کے پہلے دن یکم جنوری کو ا پنے ٹوئٹ میں کہاکہ پاکستان کو پندرہ سالوں میں 33 ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی ہے۔ پاکستان نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ ہم افغانستان میں دہشت گردوں کونشانہ بناتے ہیں اور پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پنا ہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ہم سے معمولی تعاون کرتا ہے اور اب ایسا نہیں ہوگا۔

ٹویٹ کے مطابق: "پاکستان امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتا ہے۔” (Photo: abc.net.au)

ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں اگرچہ بظاہر پاکستان پر الزام تراشی کی ہے لیکن اصل میں اس نے سابق دو امریکی صدور جارج بش، بارک اوبامہ اور امریکی خارجہ سیکرٹری سٹیٹ ہیلری کلنٹن پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ ان بے وقوفوں نے پاکستان کو تینتیس ارب ڈالر کیوں کر دیے؟ حالاں کہ امریکہ نے ہمیں کوئی امداد نہیں دی بلکہ امداد کے نام پر یہ رقم امریکہ نے اس لئے دی تھی کہ پاکستان نے امریکہ کو اس کے بدلے سہولیات فراہم کی تھیں جبکہ پاکستان کو اس سے بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ کیوں کہ امریکہ یہ کھیل مسلمان ملکوں کے معدنی وسائل پر قبضے کے لئے بہت پہلے سے شروع کر چکا ہے۔ روس کی شکست پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ یہ صلیبی جنگوں (مسلمانوں کے خلاف جنگوں) کا سلسلہ ہے اور ہم اسی کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کھلے عام کہا تھا کہ ہم نے کمیونسٹوں کو شکست دے دی ہے اور اب صرف مسلمان ہمار ے دشمن رہ گئے ہیں۔ سعودی عرب میں جو قیادت امریکی ایجنڈے کی راہ میں رُکاوٹ تھی، اسے ختم کر دیا گیا۔ عرب ریاستیں لیبا، شام،عراق بھی تباہی کا شکار ہیں جو امریکہ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر سکتی تھیں۔ خانہ جنگی اور خوں ریزی کے باعث ان عرب ریاستوں کا علاقائی اور عالمی سطح پر سیاست میں کردار اور اثر و رسوخ ختم ہوچکا ہے۔ یاسر عرفات کے بعد فلسطین میں بھی سیاسی تقسیم بہت گہری ہو چکی ہے۔

ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں اگرچہ بظاہر پاکستان پر الزام تراشی کی ہے لیکن اصل میں اس نے سابق دو امریکی صدور جارج بش، بارک اوبامہ اور امریکی خارجہ سیکرٹری سٹیٹ ہیلری کلنٹن پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ ان بے وقوفوں نے پاکستان کو تینتیس ارب ڈالر کیوں کر دیے؟ (Photo: Fortune)

یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حقیقت کیا ہے؟ اگر یہ دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ، داعش، طالبان اورٹی ٹی پی وغیرہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی تنظیمیں ہوتیں، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں ہی کے خلاف کیوں لڑ رہی ہیں؟ وہ غیر مسلموں کو نشانہ کیوں نہیں بناتیں؟ اگر یہ شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کی ہوتیں، تو انڈونیشیا جوآبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے، یہ تنظیمیں وہاں کیوں نہیں ہوتیں؟ ان دہشت گرد تنظیموں کا مقصد اسلام کی سربلندی نہیں بلکہ اُن مسلمان ممالک کے خلاف لڑنا ہے، جہاں تیل، گیس، ز مرد، جواہرات اور دیگر معدنیات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ڈراما کے لکھے گئے سکرپٹ، ڈائریکٹر اور ڈارمے کے ہدایت کار کی ہدایات کے مطابق اپنا رول ادا کرتی ہیں۔ یہ ہدایت کارکی مرضی اورمنشا پر ہے کہ وہ عراق سے کس تنظیم کو بلاتا ہے؟ شام سے کس تنظم کی باری کب اور کہاں مقرر کی جاتی ہے؟ سوڈان کے کرداروں کو کہاں کہاں کام پر لگانا ہے؟ سعودی عرب، الجزائر، صومالیہ اور افغانستان کے ایکٹروں کو کہاں کہاں اورکیا کردا ادا کرنا ہے؟ ہدایات کے مطابق یہ تنظیمیں ضرورت پڑنے پر الگ الگ بھی کام کرتی ہیں اور اگر حالات اجازت دیں، تو یکجا بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ہدایت کار کے کہنے پرصرف مسلمان ملکوں کو تاراج کرتی ہیں۔ ان کا مقصد ان ممالک سے تیل نکالنا، گیس لے جانا، معدنیات کو لوٹنا اورانھیں کنگالنا ہے۔

یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حقیقت کیا ہے؟ (Photo: www.sldinfo.com)

نائن الیون کا ڈراما بھی ایک سکرپٹ کے مطابق تھا۔ تین ہزار بے گناہ لوگوں کو صرف ڈراما رچانے کے لئے مارا گیا اور اسامہ بن لادن نے خوشی سے جھومتے ہوئے یہ الزام اپنے سر لے لیا۔ مغربی ممالک فرانس، جرمنی اور اٹلی کے ذرئع ابلاغ میں ان واقعات پر سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ کابل میں دہشت گردی کی نئی لہر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ پاکستان کے لئے ایک انتباہ اور اشارہ ہے کہ پاکستان ان کے اشاروں پر چلے، ورنہ اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ اگر امریکہ ایک طرف افغانستان میں اپنے قیام کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف وہ اپنے طویل قیام کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنااور ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنابھی چاہتا ہے جبکہ روس، چین، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ملکوں پر نظر رکھنا بھی مقصود ہے۔ داعش کے بڑھتے ہوئے کردار اور کچھ عرصہ سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے اس بات کوتقویت ملتی ہے کہ داعش کو افغانستان میں لانے ، اسلحہ اوردیگرسہولیات فراہم کرنے والا امریکہ اور اِس کے اتحادی ہی ہیں۔ اس کے بارے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کے انکشافات پر مبنی بیانات کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی حکمرانوں کے دلوں اور آنکھوں پر اللہ تعالی نے قفل ڈال دیے ہیں۔

نائن الیون کا ڈراما بھی ایک سکرپٹ کے مطابق تھا۔ تین ہزار بے گناہ لوگوں کو صرف ڈراما رچانے کے لئے مارا گیا. (Photo: The Atlantic)

برسبیل تذکرہ، ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی حالت منشی پریم چند کے ڈرامے ’’ شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کے ان دو کرداروں مرزا سجاد علی شاہ اور سید روشن علی جیسے ہو چکی ہے، جو لکھنو کے نواب واجد علی شاہ کے زمانے میں دریائے گومتی کے پار ایک ویران جگہ آمنے سامنے بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے کہ انگریز فوج لکھنو پر حملہ آور ہونے کے لئے آرہی تھی۔ یہ دونوں شطرنج کے کھیل میں مگن ہوتے ہیں اور انگریز فوج ان کے پاس سے گزر جاتی ہے۔ لکھنو کے دفاع کے لئے کوئی ایک بھی شخص نہیں آتااور کوئی بھی وطن پرجان دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ انگریز فوج بغیر لڑے لکھنو پر قبضہ کر لیتی ہے۔ نواب واجد علی شاہ گرفتار ہو جاتے ہیں۔ انگریز فوج شطرنج کے ان دو کھلاڑیوں کے پاس سے واپس گزر جاتی ہے۔ وہ نواب واجد علی شاہ کی گرفتاری پر کچھ دیر کے لئے ہائے ہائے کرتے ہیں کہ حضور کو ظالموں نے گرفتار کر لیا۔ہا ئے ہائے لکھنو کا چراغ آج گل ہوگیا۔ کیاصدمہ جانکاہ ہے، دل ہے کہ رُکا جاتا ہے لیکن اللہ کو یہی منظور تھا اور پھر سید روشن علی شاہ مرزا سے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنی چال چلیں۔ وہ دونوں پھر سے شطرنج میں کھو جاتے ہیں۔ آگے یوں ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کرتے ہوئے طیش میں آ جاتے ہیں۔ دونوں دوست نیام سے تلواریں نکالتے ہیں۔ دونوں عیش کے بندے ہوتے ہیں، مگر ’’بے غیرت‘‘ نہیں ہوتے۔قومی دلیری ان میں عنقا ہوتی ہے اوران کے سیاسی جذبات فنا ہوگئے ہوتے ہیں۔ تلواریں چمکتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی جان لے کر ہی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
اپنے بادشاہ کے لئے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو تک نہ گرا انہوں نے اپنے شطرنج کے وزیر کے لئے ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے پاکستان پر ڈبل گیم کا بھی الزام لگایا ہے۔ امریکی سفیر کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ ڈبل بلکہ ’’ٹرپل گیم‘‘ کھیلتا رہا ہے۔ پاک بھارت جنگ 1965ء میں امریکہ نے پاکستان کو اسلحہ اور ہوائی جہازوں کے پرزے بند کر دیے، جس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ امریکی ساخت کے F-104 جہاز اُڑنے کے قابل نہ رہے۔اسی طرح 1971ء میں بھی امریکہ نے پاکستان کو ھوکا دیا۔ روس کی شکست اور افغانستان پر قبضہ پاکستان ہی کی مدد سے ممکن ہوا لیکن ایک بار پھر امریکہ توتا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں کو ماننے سے انکار کر رہا ہے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔