بحیثیت پاکستانی قوم ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کے پیچھے زیادہ بھاگتے ہیں جو ملتی نہیں جیسا کہ کشمیر، اور وہ چیزیں جو ’’پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گر رہی ہیں‘‘ ہم انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔
فاٹا کے عوام دن رات منت سماجت رک رہے ہیں کہ 1877ء میں انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہٹا کر ہم پر آئین پاکستان نافذ کیا جائے لیکن پچھلے پانچ سال سے ہم روز سنتے آرہے ہیں کہ فاٹا اب ضم ہو رہا ہے، فاٹا تب ضم ہو رہا ہے۔یہ انضمام کاغذی فائلوں سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس جدید ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق کے دور میں بھی فاٹا کی سرزمین پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ایکٹ جسے عرف عام میں ’’ایف سی آر‘‘ کہا جاتا ہے، نافذ ہے ۔ یہ انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون ہے جس کی رُو سے فاٹا کے عوام کو تین بنیادی حقوق ’’اپیل، وکیل اور دلیل‘‘ سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس قانون میں 1893ء اور 1901ء میں چند ترامیم بھی شامل کی گئی ہیں لیکن ہر ترمیم پچھلے والی سے سخت ہے۔ خاص کر پاکستان بننے کے بعد حکومت نے 1947ء میں ایک قدم آگے بڑھ کر ’’ایف سی آر‘‘ کو مزید سخت بنا دیا اور اس میں یہ شق شامل کی گئی کہ انتظامیہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو بغیر الزام یا جرم کے تعین کے گرفتار کرسکتی ہے۔ اس کالے قانون میں ایک حیوانیت یہ بھی ہے کہ ایک شخص کے جرم کے بدلے پورے خاندان، قوم یا قبیلے کو مجموعی طور پر سزا دی جاتی ہے جس کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں کرسکتا۔ قبیلے کا سربراہ اپنی قوم کے اچھے برے کیلئے جواب دِہ ہوتا ہے اور اُسے وظیفہ بھی ملتا ہے۔ ’’ایف سی آر‘‘ کی رو سے پاکستان کی کسی بھی عدالت کا دائرہ اختیار فاٹا پر لاگو نہیں۔

انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون ہے جس کی رُو سے فاٹا کے عوام کو تین بنیادی حقوق ’’اپیل، وکیل اور دلیل‘‘ سے محروم رکھا گیا ہے۔ (Photo: The Express Tribune)

’’ایف سی آر‘‘ کے بہت سے قوانین جیسا کہ جرگہ ممبران کا تقرر، ٹرائل کا طریقہ کار، گھر مسماری، مجموعی سزا کا قانون، اچھے رویے کی ضمانت کروانا اور جرمانے لگانے کا طریقہ کار آئین پاکستان سے براہِ راست متصادم ہے۔ اب آپ لوگ خود اندازہ لگائیں کہ کیا حیوانیت اور درندگی سے بھر پور اس کالے قانون کی کوئی گنجائش ہے؟ میرے خیال میں تو کوئی بندہ ایسا قانون اپنے دشمن کیلئے بھی نہیں چاہ سکتا جو کہ ہمارے بھائیوں پر پہلے سے ہی نافذ ہے۔
2011ء میں آصف علی زرداری، اُس وقت کے صدر پاکستان نے آٹے میں نمک کے برابر initiative لے کر چند اصلاحات نافذ کی تھیں جن میں عورتوں اور 16 سال سے کم بچوں کا مجموعی سزاؤں سے تحفظ، پورے قبیلے کی گرفتاری منع کرنا، فاٹا ٹریبونل کا قیام، ضمانت کا انتظام اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانا، شامل تھے۔ لیکن یہ اصلاحات بھی ’’ایف سی آر‘‘ کے آگے بے بس ہیں ۔ فاٹا کے عوام اگر چہ قومی اسمبلی کے ممبران اور پھر وہی ممبران سینیٹرز منتخب کرتے ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ ممبران پورے ملک کیلئے تو قانون سازی کرسکتے ہیں لیکن اپنے حلقے کے عوام کیلئے کوئی بھی قانون نہیں بنا سکتے۔
موجودہ حکومت نے 2014-2017ء تک شہاب الدین خان اور اس کے ساتھی ایم این ایز کے شدید دباؤ کے بعد، سرتاج عزیز (اس وقت قومی سلامتی کے مشیر اور مشیر خارجہ) کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے فاٹا کے قیام کے دوران میں معلوم کیا کہ عوام کی اکثریت ’’کے پی کے‘‘ کے ساتھ انضمام چاہتی ہے جبکہ چند مفاد پرست لوگ اپنی ذاتی فائدے کیلئے ’’ایف سی آر‘‘ یا الگ صوبے کا نعرہ لگا رہے ہیں جو کہ اسٹریٹجک لحاظ سے بالکل ناممکن ہے۔ میں محترم مولانا فضل الرحمان صاحب اور محترم محمود خان اچکزئی صاحب سے یہ اپیل کرتا ہو کہ آپ دونوں کی وجہ سے فاٹا کے عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔ اس لئے خدارا، حکومت کو اس کشمکش سے نکالیں۔ حکومت اس وجہ ان دو اتحادی رہنماؤں کی رائے ماننے پر مجبور ہے کہ باقی ساری پارٹیاں تو حکومت کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس لئے حکومت ان دونوں جماعتوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ میں اس لحاظ سے ساری جماعتوں کو اس ناکامی کا مشترکہ ذمہ دار ٹھہرا تا ہوں، کیوں کہ انہوں نے حکومت کو اتنا مجبوِرکیا ہوا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے اتحادیوں کو ناراض نہیں کرسکتی؟

مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمود خان اچکزئی فاٹا کے انضمام میں رکاوٹ بنے ہیں۔ (Photo: Tribal News Network)

میری اربابِ اختیار سے اپیل ہے کہ آپ جلد از جلد فاٹا کے عوام کو پاکستان کا شہری بنائیں یا اپنے خاندانوں کو فاٹا میں شفل کریں، تاکہ آپ کو پتا چلے کہ اس کالے قانون کے کیا نقصانات ہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد فاٹا کو ’’کے پی کے‘‘ کے ساتھ ضم کریں، ورنہ اس تاخیر کا ایک ہی حل نکلے گا اور وہ ہے: ’’تنگ آمد بجنگ آمد۔‘‘

………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔