اخباری اطلاع کے مطابق صوبائی سکولز ڈائریکٹوریٹ نے صوبے کے 25 اضلاع کے 45 لاکھ گھرانوں کا سروے بائیس کروڑ ستر لاکھ روپے کے خرچ سے مکمل کرکے یہ اپنی نا اہلیت اور ناکامی کو طشت ازبام کر دیا۔ اس سروے پر سکولز ڈائریکٹوریٹ خراجِ تحسین کا مستحق ہے، ورنہ ماضی کے حالات تو یہی دکھاتے رہے ہیں کہ اس محکمے نے ہمیشہ ’’سب اچھا‘‘ بلکہ ’’سب سے اچھا‘‘ کی رپورٹ دے کر عوام کو دھوکے میں رکھا ہے۔ محکمے کی پلاننگ (منصوبہ سازی) اور فنانس (مالیات) اور انتظامی امور کا بوجھ مزید اس پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ کیوں کہ ان ذمہ داریوں کے لیے جن اختیارات اور قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اساتذۂ کرام جیسے نرم اور نفیس لوگوں میں قدرتی طور پر ہوتی ہی نہیں۔ عملی طور پر یہ محکمہ اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کلرکس چلاتے ہیں جبکہ ضرورت یہاں اعلیٰ بیوروکریسی کی ہے۔ حالات کا دیانتدارانہ تجزیہ میرے اس مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ آپ کسی بھی والد سے محکمہ اعلیٰ تعلیم یا ثانوی تعلیم کے بارے میں دریافت کریں، وہ محکمے کی کارکردگی سے شاکی ہوگا۔ تعلیم یافتہ بچوں کی ’’تعلیمی استعداد‘‘ اور کردار کا معیار آج تمام سنجیدہ والدین کے لیے سوہانِ روح ہے۔ کمزور مینجمنٹ کی وجہ سے یہ محکمہ مکمل طور پر تاجرانہ سوچ اور مارکیٹ کے قبضے میں جاچکا ہے۔ اب یہاں معیاری تعلیم دینا مقصود نہیں بلکہ پیسہ پیدا کرنا مقصود بن گیا ہے۔
یہ المیہ صرف ہمارے صوبے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہے۔ سرکاری شعبہ ہو یا نجی شعبہ، پیسے کا حصول یہاں اولین ترجیح ہے، یعنی تعلیم کے نام پر کمائی۔ سرکاری شعبے میں آپ تعمیرات کا معیار، سپلائز کا معیار، غیر ترقیاتی بجٹ کی عظیم مقدار اور اساتذہ سے ہر کام کے لیے رشوت لینا ڈھکی چھپی باتیں نہیں۔ سب متاثرہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔
امداد (قرضہ جات) دینے والی بیرونی ایجنسیز نے حکومت سے سکولوں کے اخراجات کے لیے فردِ واحد کی جگہ والدین اور سکول انتظامیہ پر مشتمل کمیٹیاں بنوائیں لیکن یہاں بھی نوے فی صد سے زیادہ اخراجات میں ’’والدین‘‘ اور ملازمین کے درمیان مکھ مکا کے ذریعے گھپلے ہی ہوتے ہیں۔
سرکاری شعبے کی خراب کارکردگی نے ایک بڑا خلا پیدا کردیا جسے مارکیٹ اور مدارس کی سوچ نے پر کرنے کی کوشش کی اور وطنِ عزیز میں نئے سماجی، سیاسی اور مذہبی سوالات پیدا ہوگئے۔ مرحوم و مغفور والئی سوات کے زمانے میں دو تین اسلامی مدارس پورے چار موجودہ اضلاع کی مساجد اور دارالقضا (ریاستی) کی ضروریات تسلی بخش انداز سے پورا کر رہے تھے۔ مذہب یا مسلک کے حوالے سے کسی قسم کا تناؤ ہم کو یاد نہیں۔ ریاست میں ایک بھی پرائیویٹ سکول نہیں تھا اور تمام کی تمام ضروریات عام سرکاری سکولز پورا کر رہے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ریاستی محکمۂ تعلیم کو والئی سوات کی اعلیٰ نگرانی اور رہنمائی براہِ راست حاصل تھی یعنی آج سے بدرجہا بہتر انتظامی معیار۔ آج کسی ڈپٹی کمشنر کے پاس (شاید) یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی یونیورسٹی، کسی بورڈ، کسی کالج یا کسی سکول سے پوچھنے کی جرأت بھی کرے۔ یوں سیکرٹری، چیف سیکرٹری، وزیراعلیٰ اور گورنر ناقدانہ جانچ سے محروم ہوتے ہیں۔

مرحوم و مغفور والئی سوات کے زمانے میں دو تین اسلامی مدارس پورے چار موجودہ اضلاع کی مساجد اور دارالقضا (ریاستی) کی ضروریات تسلی بخش انداز سے پورا کر رہے تھے۔ مذہب یا مسلک کے حوالے سے کسی قسم کا تناؤ ہم کو یاد نہیں۔ ریاست میں ایک بھی پرائیویٹ سکول نہیں تھا اور تمام کی تمام ضروریات عام سرکاری سکولز پورا کر رہے تھے۔ (Photo: The Express Tribune)

اور والدین تو کسی شمار قطار میں نہیں آتے۔ اس صورت حال میں انقلابی لیکن مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ محکمہ ہر بچے کو سکول میں لانا چاہتا ہے جبکہ اس کے پاس موجودہ بچوں کو بٹھانے کے لیے گنجائش نہیں۔ اس حوالہ سے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔
محکمہ سکولز کے سروے کے مطابق اس وقت ہمارے صوبے میں پندرہ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں سروے کے مطابق پانچ لاکھ لڑکیاں اور دس لاکھ لڑکے ہیں (یہ تناسب بھی مشکوک ہے۔ کیوں کہ وطن عزیز میں خواتین و مرد تقریباً برابر مقدار میں ہیں) اگر محکمہ نالائقی کا ایک اور ثبوت نہ دیتا اور انہی دنوں ہونے والی قومی مردم شماری اور خانہ شماری کے ذریعے اپنی معلومات اکٹھی کرواتا، تو تقریباً تیئس کروڑ روپیہ کا خرچہ بچ جاتا اور اس سے کئی نئے سکولز بن جاتے۔ محکمہ سکولز کی مذکورہ بالا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں 17 سال سے کم عمر کے بچے 18 لاکھ ہیں۔ گویا کہ اس محکمے نے صرف 17 سال کی عمر کے آڈٹ آف سکولز بچوں کا حساب لگایا ہے۔ چوں کہ محکمے کے ہائیر اور سکولز شاخوں میں تعاونِ کار یعنی ’’کو آر ڈی نیشن‘‘ نہیں ہے۔ اس لیے اس نے کالج عمر کے بچوں اور بچیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ حالاں کہ اسی خرچے اور اسی سروے میں یہ اعداد بھی معلوم کئے جاسکتے تھے۔ چوں کہ صوبائی حکومت، تعلیم کی منصوبہ بندی عناد کے شکار افراد سے کرتی ہے، اس لیے صوبے میں سکولوں کی تعداد کی نسبت ڈگری کلاسز میں گنجائشیں نہایت ہی کم ہیں۔ بہت سارے ہائیر سیکنڈری سکولز سرکاری اور نجی شعبے میں کھل گئے ہیں لیکن اُن کے تناسب کے مطابق ڈگری کالجز قائم نہ ہوسکے۔ اس طرح نصاب اور کیری کو لم، ٹیکسٹ بکس کا معیار اور فراہمی امتحانات کے ذمہ دار اداروں اور یونیورسٹیوں اور مارکیٹ ڈیمانڈ میں غیر منصفانہ فرق ہے۔ کارکردگی اور معیار افسوسناک ہے۔ ضرورت ایک انقلابی تبدیلی کی ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ
1:۔ تعلیمی معاملات کے فرائض کو چھوڑ کر محکمہ تعلیم کے انتظامی، مالی، مالیاتی اور منصوبہ سازی کے امور کو اساتذہ کرام سے لے کر باقاعدہ او ایم جیز، اکاؤنٹس گروپ کے آفیسرز اور پلاننگ کے باقاعدہ آفیسرز کے حوالے کیا جائے۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نوجوان افراد سے مناسب بھرتی بذریعہ مقابلے کے امتحان کے کی جائے۔ آج تک محکمہ مکمل طور پر کلرکوں کے کاندھوں پر چلا آ رہا ہے، اس صورتحال کا خاتمہ ضروری ہے۔
2:۔ صوبائی ڈائریکٹوریٹس کو ختم کیا جائے اور مناسب قوتِ کار اور استعداد، ضلعی اور ڈویژنز کے دفاتر میں بڑھانے کے بعد ڈویژنل سطح کے ڈائریکٹوریٹس کمشنرز کی زیر نگرانی بنائے جائیں۔ کمشنرز براہِ راست متعلقہ سیکرٹریز کو جوابدہ ہوں۔ ہر ضلعی حکومت اپنے یہاں مختلف محکموں کا بذریعہ ڈپٹی کمشنرز نگران ہو اور اپنے اضلاع میں ضلعی ناظم و ناظمین اپنے ہاں کے محکموں سے اپنی مقامی ضروریات کے مطابق کام لے۔ یوں والدین کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ بھی اپنے بچوں کا پوچھ سکیں گے۔

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔