دنیا کی تمام جمہوری حکومتوں نے طرزِ حکمرانی میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے اپنے شہریوں کی تمام حکومتی معلومات تک رسائی کو بطورِ بنیادی آئینی حق تسلیم کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق نمبر 19-A کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی حاصل کرے، ماسوائے ان کے جن پر کسی قانون کے تحت قابلِ جواز پابندی لگائی گئی ہو۔ سال دو ہزار تیرہ میں صوبائی خود مختاری کے لئے آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور کی گئی اور صوبائی حکومتوں کو دیگر کے علاوہ شہریوں کی معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کے اختیارات منتقل کر دیئے گئے۔ ترمیم کو بنیاد بناتے ہوئے اسی سال خیبر پختون خواہ کی حکومت نے شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دینے کی خاطر ’’رائٹ ٹو انفارمشن ایکٹ2013ء‘‘ نافذ کیا۔ آئینِ پاکستان کی شق 19-A کے موافق یہ ایکٹ بھی ہر شہری کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ عوامی اہمیت کی تمام معلومات حاصل کرے۔ بہ شرط یہ کہ ان معلومات کے حصول پر کسی قانون یا ضابطے کے تحت قابلِ جواز پابندی نہ لگائی گئی ہو۔ اس ایکٹ کا جواز یہ ہے کہ معلومات تک رسائی میں شفافیت نہ صرف جمہوریت کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کی مدد سے طرزِ حکمرانی میں بہتری بھی آتی ہے، یوں بدعنوانی بھی کم ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے آئین کی شق نمبر 19-A کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی حاصل کرے۔ (Photo: Sama Tv)

حکومت اور اس کے زیرِانتظام چلنے والے اداروں کے علاوہ ان اداروں کو بھی عوام کے سامنے جواب دہ بنا دیا جائے جو سرکاری یا بیرونی مالی امداد لے رہے ہوں۔ جمہوری عمل میں شہریوں کی با معنی شرکت، اپنے کردار اور ذمہ داریوں کو بہتر بنانے کے لئے لازمی ہے کہ وہ عوامی اہمیت کی تمام معلومات اور دستاویزات سے استفادہ کریں۔ ملاکنڈ ڈویژن جس کی آبادی خیبر پختون خواہ کی کل آبادی کا تقریباً 23.40 فیصد بنتی ہے، میں معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت، بین الاقوامی ادارے اور دیگر ممالک کے سربراہان کا ماننا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے پاکستان کی بقا کی خاطر بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ گذشتہ ایک عشرے میں ہزاروں لوگ موت کے منھ میں چلے گئے ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ ملاکنڈ ڈیژن کے عوام نے یکے بعد دیگرے کئی ایک مصیبتو ں کا تواتر کے ساتھ سامنا کیا۔ قدرتی اور مصنوعی بحرانوں کے مارے عوام کے مسائل کے حل اور دوبارہ آبادکاری کے لئے سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے یہاں کا رُخ کیا اور کروڑوں ڈالر خرچ کئے۔ عمارتیں، سڑکیں، پل، پارک، آبنوشی اور آب پاشی کے نالے بنائے گئے لیکن کسی بھی ایک منصوبے کے بارے میں یہاں کے عوام کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ سرکاری منصوبوں کے متعلق معلومات تک رسائی اس وجہ سے ممکن نہیں کہ 1973ء کے آئین کی شق نمبر 246-b کی رو سے صوبے کے زیرِ انتظام چلنے والے قبائلی علاقوں میں کسی بھی قانون کا اطلاق صرف اس وقت ممکن ہے، جب گورنر ’’صدر‘‘ کی اجازت سے اس کے اطلاق کی ہدایات جاری کرے۔ عوامی اہمیت سے متعلق معلومات کے حصول میں حائل کوئی بھی رکاوٹ آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس کا تدارک سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں یہ مسئلہ شامل نہیں۔ کیونکہ یہ عوام کا مسئلہ ہے ایوان کا نہیں۔

ملاکنڈ ڈویژن جس کی آبادی خیبر پختون خواہ کی کل آبادی کا تقریباً 23.40 فیصد بنتی ہے، میں معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس قانون کا اطلاق ملاکنڈ ڈویژن میں کیوں روکا گیا ہے؟ ملاکنڈ ڈویژن میں جاری منصوبوں کے بارے میں معلومات مشتہر نہ کرنے سے ان منصوبوں میں مالی بے قاعدگیاں خارج از امکان نہیں۔ لہٰذا موجودہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وفاق کے ساتھ اس مسئلے پر دلیرانہ مباحثہ کرے۔ کیونکہ اس حکومت کے نعروں میں نمایاں نعرہ ـ’’کرپشن کے خلاف جنگ‘‘ ہے جو ہر سطح پر ہونا لازمی ہے۔ نچلی سطح پر عوام کو حکمرانی میں شامل کرکے طرزِ حکمرانی میں بہتری لانے اورعوام کی تشفی کرنے کے لئے معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق ناگزیر ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو عوامی اہمیت کی حامل معلومات تک رسائی نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست سوات پاکستان کے ساتھ الحاق کو تقریباً نصف صدی ہونے کے باوجود بھی ملاکنڈ ڈویژن کے عوام آدھی شہریت ہی کے حامل ہیں جسے اگر ہم دوسرے درجے کی شہریت کہیں، تو بے جا نہ ہوگا۔

……………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔