عام انتخابات سے کئی ماہ پہلے اچانک ایک پارٹی بڑی مضبوط پوزیشن کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ اس پارٹی کے دیوانے ہوتے گئے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جس میں اکثریت تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی، کا جنون انتہا کو پہنچا۔ یہاں تک کہ انتخابات سر پر آگئے۔ لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس پارٹی سے کھڑا ہونے والا امیدوار کون ہے، کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟ بس پولنگ سٹیشن میں اس کے نشان پر مہر ثبت کرتے گئے۔ یہاں تک کہ بوڑھے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور لوگوں سے پوچھتے رہے کہ وہ مخصوص نشان دکھائیں، جو جنونیوں کا ہے۔ پھر نتیجہ نکلا اور مذکورہ پارٹی سوات سمیت پورے خیبرپختونخوا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر حکومت بھی بنابیٹھی۔
اگر ان تمام باتوں کا بغور تجزیہ کیا جائے کہ پاکستان کے سرمایہ دارنہ نظام میں کس طرح ایک پارٹی نے اچانک اتنی بڑی کامیابی حاصل کی؟ اس پارٹی سے ایسے لوگ بھی کامیاب ہوئے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے تھے۔ ان میں ایک ایسا نوجوان بھی سامنے آیا جس کو سوات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ ملا۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اس پارٹی نے سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف آواز جو اٹھائی تھی، کرپشن کے خاتمے کے اعلانات جو کئے تھے، نوے دن میں تبدیلی لانے اور اداروں سے سیاسی دخل اندازی کے خاتمے کے وعدے جو کئے تھے اور ہر کام میرٹ پر کرنے سمیت دیگر خوش کن اعلانات نے لوگوں کو اپنی طرف مائل جو کیا تھا۔

اس پارٹی سے ایسے لوگ بھی کامیاب ہوئے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے تھے۔ ان میں ایک ایسا نوجوان بھی سامنے آیا جس کو سوات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ ملا۔

ہم عام عوام تو پہلے سے اس فرسودہ نظام سے بیزار تھے۔ مذکورہ پارٹی کے دعوؤں اور اعلانات نے ہم زندگی سے بیزار لوگوں کی امیدوں کو جگایا اور ہم نے بھی اعتماد کرکے انہیں حکومت دلائی۔ اب تقریباً چار سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اس پارٹی نے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنایا کہ نہیں؟ یہ فیصلہ تو عوام کریں گے، مگر کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا فیصلہ ہونا الیکشن سے پہلے ضروری ہے۔
صوبائی حکومت نے "whistle blower Act” متعارف کرایا ہے یعنی ’’جو بھی کرپشن دیکھے وہ سیٹی بجائے۔‘‘ اور وہ جتنی بڑی کرپشن دکھائے گا، وہ اتنا بڑا انعام پائے گا۔ یہ ایکٹ دیگر صوبوں کیلئے ایک مثال بھی ہے۔ کئی ماہ پہلے حلقہ NA 29 سے منتخب ممبر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی لیڈروں میں شمار ہونے والے مراد سعید صاحب جو اپنے جوشِ خطابت کے حوالے سے بھی مشہور ہیں، ان کی ایک ویڈیو دیکھی۔ موصوف نے تقریر کے دوران میں لوگوں کو اس ’’ایکٹ‘‘ کے بارے میں بتایا اورامیر مقام کے نام پر بار بار نہ صرف خود سیٹیاں بجاتے رہے بلکہ لوگوں سے بھی بجواتے رہے۔ میں بذاتِ خود رزقِ حلال کے حصول کیلئے سعودی عرب میں مقیم ہوں، مگر سوشل میڈیا پر مذکورہ پارٹی اور خصوصاً مراد سعید کی کارکردگی کو دیکھ کر خوش ہوتا رہا ہوں۔ مَیں اس امید پر سوات واپس جانے کی تمنا کر رہا تھا کہ دو سال میں سوات میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوگا، مگر میری امیدوں پر اس وقت آہستہ آہستہ پانی پھر رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ہی دو اہم ذمہ داروں نے سیٹیاں بجائی ہیں، مگر ابھی تک یہ پتا نہیں چلا کہ یہ سیٹیاں ایم این اے صاحب اور صوبائی حکومت کے کانوں تک پہنچی بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر پہنچی ہیں، تو ان سیٹیوں کے حوالے سے عوام کو کیوں آگاہ نہیں کیا گیا؟ حالاں کہ یہ دونوں سیٹیاں عوامی پلیٹ فارم یعنی ’’اخبارات‘‘ کے ذریعے بجائی گئی ہیں۔

صوبائی حکومت نے "whistle blower Act” متعارف کرایا ہے یعنی ’’جو بھی کرپشن دیکھے وہ سیٹی بجائے۔‘‘ اور وہ جتنی بڑی کرپشن دکھائے گا، وہ اتنا بڑا انعام پائے گا۔

سب سے پہلے پارٹی کے موجودہ ضلعی ترجمان اور انچارج وزیر اعلیٰ کمپلینٹ سیل سوات کے انچارج سہیل سلطان ایڈووکیٹ نے سیٹی بجائی تھی۔ ایک اخباری بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ تین اداروں میں کروڑوں کی کرپشن ہو رہی ہے، جن میں ٹی ایم اے پہلے نمبر پر، پبلک ہیلتھ دوسرے اور محکمہ مال تیسرے نمبر پر ہے۔ ان کی کرپشن کے کیسز کو ایک فائل کی صورت میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موصوف نے اس سلسلے میں پریس کانفرنس کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔سیٹی بجنے کی دیر تھی کہ سب سے پہلے اے این پی سے تعلق رکھنے والے تحصیل ناظم اور جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے نائب ناظم نے ایک اخباری بیان کے ذریعے سہیل سلطان ایڈووکیٹ کو کرپشن ثابت کرنے کا چیلنج دیا۔ اب یہ مسئلہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے، جسے اگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اس سیٹی کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں چلا۔ میری معلومات کے مطابق ثبوت موجود ہونے کے باوجود ایڈوکیٹ سہیل سلطان کچھ نہیں کرسکے اور اب وہ خود مایوسی کا شکار ہیں۔

سب سے پہلے پارٹی کے موجودہ ضلعی ترجمان اور انچارج وزیر اعلیٰ کمپلینٹ سیل سوات کے انچارج سہیل سلطان ایڈووکیٹ نے سیٹی بجائی تھی۔ ایک اخباری بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ تین اداروں میں کروڑوں کی کرپشن ہو رہی ہے، جن میں ٹی ایم اے پہلے نمبر پر، پبلک ہیلتھ دوسرے اور محکمہ مال تیسرے نمبر پر ہے۔

دوسری سیٹی جو انتہائی تیز بھی تھی اور مجھے یقین تھا کہ یہ محترم مراد سعید سمیت سب ذمہ داروں کے کانوں تک پہنچی بھی ہے، مگر یہاں بھی مایوسی ہی مایوسی نظر آرہی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اٹھائیس اکتوبر کوپاکستان تحریک ا نصاف کے اپنے ہی ایک ذمہ دار شخص محترم فضل ربی بھائی کا بیان سامنے آیا کہ کڈنی ہسپتال میں سنگین گھپلوں، بدعنوانیوں اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔ ایم ایس اور ایک نثار نامی شخص پر ہسپتال سے لاکھوں مالیت کے سامان چوری کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ان میں ایک شخص وزیر اعلیٰ سمیت دیگر ذمہ داروں کے جعلی دستخطوں کا ماہر بھی ہے اور مذکورہ شخص اتنا طاقتور ہے کہ دو مرتبہ اپنا تبادلہ بھی رکوا چکا ہے۔
مذکورہ اخباری بیان میں دیگر باتیں بھی تھیں۔ سب سے پہلے اگر اس بیان کا بنظر عمیق جائزہ لیا جائے، تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ پارٹی کے ذمہ دار شخص نے اپنی ہی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کئے ہیں۔ بھائی کے بقول ’’ایک شخص دو مرتبہ اپنا تبادلہ رکوا چکا ہے۔‘‘ تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اداروں میں اب بھی دخل اندازی ہورہی ہے۔ خیر، یہ تو حکومت کا کام ہے کہ اس سلسلے میں کیا کرتی ہے، مگر ہم عام لوگ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہمیں تو سیٹیاں مارنے کا ہنر نہیں آتا اور نہ ہی اتنی پہنچ رکھتے ہیں کہ کسی ادارے کے خلاف کرپشن کے کیسز جمع کرسکیں، مگر جن لوگوں نے سیٹیاں بجائی ہیں، ان پر توجہ دی جائے اور بجانے والوں کو انعام کے طور پر کچھ دیا بھی جائے۔
میں مراد سعید صاحب کا تذکرہ صرف اس بنیاد پر کر رہا ہوں کہ موصوف ایک نوجوان لیڈر کے طور پرقومی سطح پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پارٹی میں اہم پوزیشن رکھتے ہیں اور سوات کے حقوق کیلئے کوششیں بھی کرتے ہیں۔ موصوف کو ان سیٹیوں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ان سیٹیوں کو وزیر اعلیٰ سمیت دیگر ذمہ داروں کے کانوں تک پہنچانا چاہیے۔ کیونکہ یہ سیٹیاں آپ کی اپنی ہی پارٹی کی طرف سے ہیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ عوام کو بھی آگاہ کریں کہ موصوف نے اس حوالہ سے کیا قدم اٹھایا ہے؟
اگر ان دو سیٹیوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر ان کی مکمل تحقیق کی جائے، تو اس سے عوام کی تقریباً ختم ہونے والی امیدیں پھر زندہ ہوسکتی ہیں اور دیگر اداروں کیلئے بھی یہ ایک سبق ہوگا۔ اس طرح اگر ان پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے، تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کچھ ماہ بعد پھر عوام کی طرف جانا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سیٹیاں آنے والی الیکشن مہم میں پارٹی کیلئے مشکلات کا باعث بن جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سیٹیاں بعد میں پارٹی کی ’’سٹی‘‘ ہی گم کردیں۔

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔