اکتوبر 2017ء کے شروع میں اخبارات نے خبر دی اور تصاویر شائع کیں کہ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں ایک اعلیٰ سطحی بیٹھک میں شرکت کی۔ افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔ جنرل صاحب کو افغان مسلح افواج نے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ خبروں کے مطابق یہ بیٹھک خطے میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کوششوں کا ایک حصہ تھی۔ کم از کم میرے لیے یہ ایک بہترین خبر تھی۔ میں اس خیال کا آدمی ہوں کہ انسان امن و خوشحالی کے لیے اپنی توانائیاں کیوں استعمال نہ کرے۔ کیوں انسان بہتر حالات کے لیے پُرامن طریقے استعمال نہ کرے۔ گذشتہ سو سالوں سے افغانستان اور پاک و ہند کے درمیان علاقوں کی ملکیت کو بہانہ بنا کر سرمایہ پرست لوگ یہاں ایسے حالات پیدا کئے ہوئے ہیں کہ یہاں امن مفقود ہوگیا ہے۔ بھارت کے بعض حلقے آج تک اپنے زخموں کو کرید رہے ہیں کہ مسلمانوں نے کیوں بھارت کو کاٹ کر پاکستان بنایا۔ حالاں کہ پاکستان کے عوام نے اپنے ہی علاقوں پر اپنا قومی ملک قائم کیا ہے، انہوں نے کسی ہندو اکثریتی علاقے پر قبضہ نہیں کیا۔ البتہ یہاں سے غیر مسلموں کے بھارت چلے جانے کو ایک المیہ کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ اِسی مٹی کے بیٹے تھے۔ اتنے فسادات پاکستانی علاقوں میں نہیں ہوئے تھے، جتنے وسیع علاقوں میں بھارت میں کروائے گئے تھے۔ پھر بھی بالغ نظری کا تقاضا تھا کہ حقائق کو تسلیم کیا جاتا۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ نئے حالات سے مثبت انداز سے نمٹنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے بھارت جوہر لحاظ سے اس علاقے میں زیادہ طاقتور تھا، اپنے دانشمند اشرافیہ کی مدد سے محروم رہا۔ اگر بھارت کی دانشمند اشرافیہ کو کام کرنے کا موقع ملتا، تو یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ تعاون کا راستہ اپنا کر علاقے کو پُرامن ماحول دیتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نا موزوں حالات نے بھارت کو امریکہ کا مزید متنبی بنا دیا۔ اب امریکہ اسے زیادہ محتاط انداز سے جنگ (خدا نہ کرے) کا ایندھن بنانا چاہتا ہے۔

جنرل باجوہ کا وہ دورۂ افغانستان اس علاقے میں امن کے لیے کوششوں کا ایک قابل تعریف واقعہ ہے۔ (Photo: Khyber News)

جنرل باجوہ کا وہ دورۂ افغانستان اس علاقے میں امن کے لیے کوششوں کا ایک قابل تعریف واقعہ ہے۔ ان کوششوں کو جاری رہنا چاہئے۔ بھارت اور کابل کے بارے میں تو میں کچھ لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، وہاں کے بارے میں میری معلومات بہت کم ہیں۔ البتہ اپنے ملک کے بارے میں مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ موجودہ طرزِ انتخابات میں کافی سے زیادہ غیر موزوں لوگ اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں۔ آج کل بر سرِ اقتدار مسلم لیگ والے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، اُن سے اُن کی ناقابلیت واضح ہوتی ہے۔ اشاروں میں وہ دانستہ یا نادانستہ عوام کے اذہان ملکی اداروں خصوصاً افواج کے خلاف بنا رہے ہیں۔ سوات کے معاشرے میں اداروں کے خلاف ذہن سازی کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہ ایک خوفناک عمل ہے جب عوام اور اداروں کے درمیان ذہنی خلیج بن جاتی ہے، تو پھر تباہی بہت شدید ہوتی ہے۔ اس لیے عوام اور حکومتی اداروں کے مابین عزت و احترام اور تعاون کے ماحول کو پیدا کرنا حکمرانوں کا فرضِ اول ہوتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلعم نے فاسق و تاجر حاکم کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ مسلم لیگ کی تاریخ کوئی زیادہ قابل رشک نہیں۔ محلاتی سازشیں اور سیاسی جوڑ توڑ، وفاداریاں بدلنا اس جماعت کا شروع ہی سے وطیرہ ہے۔ کراچی میں لیاقت علی خان کی آمرانہ سوچ، پشاور میں قیوم کا چنگیزی کردار اور پنجاب میں لیگ کا گرگٹ کی طرح آئے روز رنگ بدلنا وطنِ عزیز کی مشکلات ہی کے اسباب میں سے تھا۔ اب ایسے نالائق لوگوں سے کیسے توقع کی جاتی کہ وہ کابل اور دہلی کی سوچ میں تبدیلی پیدا کرتے؟ آزادی کے رُبع صدی تک تو پاکستان کی مقامی اقوام میں سے بہت کم کو فیصلہ سازی میں شرکت کا اختیار مل سکا تھا۔ جب مقامی شخص جنرل ایوب کو اقتدار ملا، تو دنیا نے پاکستان کو روبہ ترقی دیکھا۔ لیکن اُس کے لیے غیر پاکستانیوں نے پھر حالات ایسے کشیدہ کئے کہ وہ مضبوط شخص بھی اقتدار سے الگ ہوگیا۔ یحییٰ خان سے چالاک لوگوں نے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے تھے۔

جب مقامی شخص جنرل ایوب کو اقتدار ملا، تو دنیا نے پاکستان کو روبہ ترقی دیکھا۔ (Photo: Daily Pakistan)

جنگوں اور بدامنیوں سے کچھ بھی نہیں بنتا۔ البتہ مخصوص طبقوں کی تجوریاں دولت سے بھر جاتی ہیں۔ ستر سالوں سے خطے کے ممالک خصوصاً افغانستان، بھارت اور پاکستان نے بدامنی اور مخاصمت کے ماحول کے برے نتائج بھگت لئے۔ اب سپہ سالار کے دورۂ کابل سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ یہ ممالک پُرامن ماحول کے حصول کے لیے سنجیدہ ہیں۔ پُرامن ماحول کے لیے جدوجہد میں دہلی اور تہران کو بھی شامل کرنا چاہئے، تاکہ یہ علاقہ بیرونی طاقتوں کے لیے میدانِ جنگ نہ بن جائیں۔
روس، چین اور پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ امریکہ نے علاقے میں بھارت کو استعمال کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اُس کی مناسب توڑ کی جائے۔ افغانستان کے عوام اپنی زمین کو اس خطے میں فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایران پہلے سے امریکہ کے نشانے پر ہے اور ہم لوگ کسی بھی شکل میں ایران اور افغانستان کو مشکلات میں پسند نہیں کرتے۔ ہم بھارت میں بھی امن اور ترقی چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہماری آرزو ہے کہ وہ شرارتیں کرنا چھوڑ دے، دوستی اور تعاون کرے۔ اگر یہ نہیں کرسکتا، تو پھر ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا اصول اپنائے۔
جنرل باجوہ کا دورۂ کابل یقینا ایک خوشگوار واقعہ ہے۔ اس علاقے کو جنگ اور بدامنی سے بچانا بلکہ پوری دنیا میں امن کا قیام سب کی اولین ترین ترجیح ہونی چاہئے۔ امریکہ اور اُس کے حواری افغانستان میں اپنا مضبوط فوجی مستقر بنانے کے لیے عشروں سے خواہشمند ہیں، تاکہ وہ یہاں کے جوہری استعداد والے چین، روس، بھارت، پاکستان، اسرائیل (مبینہ ایٹمی ملک) اور ایران (مبینہ ایٹمی طاقت کے قریب ملک) کے عین وسط میں آکر بیٹھا رہے اور اپنی من مانیاں کرتا رہے۔ جنرل باجوہ کا مشن مشکل ضرور ہے۔ اس کے خلاف کئی قسم کے اقدامات سامنے لائے جانے کے خدشات موجود ہیں لیکن مقصد بھلا ہے۔ بھلائی کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔

……………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔