ایک قوم کی خوشی، غمی، مصائب اور مشکلات ایک فرد کی بہ نسبت زیادہ طویل المیعاد ہوتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ فرد کا درد وقت کے ساتھ جاتا رہتا ہے جبکہ قوم کی ذکر شدہ مشکلات دیرپا اور نتائج دور رس ہوتے ہیں، جس میں سارا معاشرہ ان سے متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس طرف سوچا جائے، تو بندے کو جنون پکڑ لیتا ہے۔ تاہم معاشرے کی مشکلات، سیاسی بصیرت اور حکومتی توجہ سے حل ہوتی ہیں۔ ارتقائی طور پر یہ مشکلات عشروں میں حل ہوتے ہوئے صدیاں لیتی ہیں، جبکہ اجتماعی طور پر یہ بہت کم وقت لیتی ہیں۔ اس طرح اگر قوم کے اجتماعی مسائل پر بروقت قابو نہ پایا جائے، تو یہ اس مصرعہ کے مصداق بن جاتا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
پاکستان میں اسموگ کا بڑھتا ہوا رجحان قدرت کی طرف سے ایک عذاب ہے۔ یہ ایک طرح سے معاشرتی المیہ ہے، جس نے سارے معاشرے کو اپنے شکنجہ میں لیا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں پہلے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا عمل اسموگ کے بڑھنے میں کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ اسموگ کی وجوہات و نتائج میں ماحولیات کو آلودہ کرنے کے علاوہ بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ توانائی سے چلنے والے کارخانے، سڑکوں پر سرپٹ دوڑتی ہوئی گاڑیاں، فصلوں، ٹائرزا ور کوڑا کرکٹ جلانے کا عمل بھی اسے پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے۔دوسری طرف جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی آلودگی بھی ا سموگ پیدا کرنے کی وجوہات ثابت ہوئی ہیں۔

اسموگ کی وجوہات و نتائج میں ماحولیات کو آلودہ کرنے کے علاوہ بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ توانائی سے چلنے والے کارخانے، سڑکوں پر سرپٹ دوڑتی ہوئی گاڑیاں، فصلوں، ٹائرزا ور کوڑا کرکٹ جلانے کا عمل بھی اسے پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے۔

اسموگ جیسے معاشرتی المیے کو کم کرنے کے لئے یا ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے حل کون فراہم کرسکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اجتماعی طور پر قوم میں اسموگ کے حوالے سے شعور پیدا نہیں ہوگا، تو اس کا سد باب کرنا ناممکن ہے۔ اسموگ ’’دھند‘‘ کے اسباب و وجوہات میں جنگلات لگانے کا مؤثر نظام قائم نہ ہونا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی شامل ہیں۔ رکشوں، چنگ چی، موٹر سائیکل اور مختلف قسم کی گاڑیوں کے پھٹے سایلنسر کو قابو میں نہ لانا بھی اس مرض کو بڑھا وا دے رہے ہیں۔ یا اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان گاڑیوں کا متبادل لایا جائے۔
حکومت کی ناقص پالیسی کے سبب بھی اسموگ بڑھتا ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ تمام کارخانے، ٹرینیں اور ہوائی جہاز جو آلودگی خارج کرتے ہیں، اس سے بھی ا سموگ بڑھتا ہے۔ مختلف قسم کی آلودگی کو ڈمپ کرنے کے لئے مخصوص جگہوں کے نہ ہونے کے سبب آلودگی کو دریا برد کیا جاتا ہے۔ کوئلہ کے ایندھن کو جلاتے ہوئے بجلی بنانا اور کارخانے چلانابھی اسموگ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ فیکٹریوں سے مختلف قسم کی گیسوں کا اخراج اور بھٹیوں سے نکلتا زہریلا دھواں ماحول کو زہرآلود کرنے کے علاوہ اسموگ کو بڑھاوا دیتا ہے۔مطلب اس پر ہر قسم کا دھواں اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ایٹمی تابکاری اور گولہ بارود کا استعمال اس سب کے علاوہ ہے۔ میری نظر میں اس کا واحد حل ماحول کو صاف رکھتے ہوئے جنگلات کے لگانے میں مضمر ہے ۔
سائنسدانوں نے اب تک اس طرح کے کم از کم دو مختلف قسم کے ا سموگ یعنی سلفرس اسموگ اور فوٹو گرافک اسموگ کو دریافت کیا ہے۔ سلفرس اسموگ کو ’’لندن اسموگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فوٹوکیمیکل اسموگ، ماحول میں سورج کی روشنی میں تیرتے ہوئے ذرات، نائٹروجن آکسائڈز اور مستحکم نامیاتی مرکبات کے کیمیائی ردعمل سے بنتا ہے۔ فضائی آلودگی کے اس خطرناک مرکب میں مختلف اجزا شامل ہوسکتے ہیں۔ جب سورج کی روشنی اور اس کے گرم ماحول میں ان گیسوں کی موجودگی کی وجہ سے فضا میں صاف ذرات کے ساتھ اس کا رد عمل ہوتا ہے، تو ہی اسموگ کا وجود بنتا ہے۔
ایک آسان سی بات یہ ہے کہ جب ایندھن کو جلا دیا جاتا ہے، تو اس سے اسموگ پیدا ہوتا ہے۔ اسموگ اس وقت بھی پیدا ہوتا ہے جب سورج کی روشنی اور اس کی گرمی ان گیسوں کے ساتھ ماحول میں صاف ذرات سے ردعمل کرتی ہے، تو اسموگ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ فوگ اسموگ خالص طور پر ہوا میں خارج کیا ہوا دھواں یعنی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
درج ذیل امور پر عملدرآمد کرتے ہوئے اسموگ دھند یعنی دھویں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
٭ گاڑی کو کم چلانے سے اسموگ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
٭ گاڑی کے سائلنسر کا خیال رکھنے سے بھی ا س میں کمی ہوسکتی ہے۔
٭ گاڑیوں میں دن اور رات کے سرد اوقات میں ایندھن بھرنے سے بھی اسموگ میں کمی آجاتی ہے۔
٭ بھاری مقدار میں خارج کرنے والے وی او سیزکو نظر انداز کرنے سے بھی اسموگ کم ہوتا ہے۔
٭ گیس سے چلنے والے یارڈ کے سامان اورلان مورز سے بھی اسموگ پھیلتا ہے۔
اسموگ انسانی جسم پر بھی اثر انداز مختلف بیماریاں لاتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریاں پیدا کرنے کے عوامل پیدا کرتا ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے نزلہ، کھانسی اور گلے یا سینے کی جلن ہوتی ہے۔ سانس لینے والے نظام میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔

جب ایندھن کو جلا دیا جاتا ہے، تو اس سے اسموگ پیدا ہوتا ہے۔ اسموگ اس وقت بھی پیدا ہوتا ہے جب سورج کی روشنی اور اس کی گرمی ان گیسوں کے ساتھ ماحول میں صاف ذرات سے ردعمل کرتی ہے، تو اسموگ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ فوگ اسموگ خالص طور پر ہوا میں خارج کیا ہوا دھواں یعنی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

اسموگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے زیادہ تر امراض کے کچھ گھنٹوں میں ٹھیک ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اوزون کے اسموگ کے اثرات کی وجہ سے پھیپھڑوں کی عمل میں خرابی پیدا ہوجا یا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اسموگ سے انسانی صحت پرخراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے اسموگ سے ’’استما‘‘ یعنی سانس کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اسموگ آنکھوں کو لال کرکے مرض لاحق کرتا ہے۔ یہ نزلہ اور پھیپھڑوں کے انفیکشنز کے خلاف مزاحمت کو کم کرتا ہے ۔اوزون میں اسموگ کی وجہ سے پودوں کی ترقی رک جاتی ہے۔ فصلوں اور جنگلات کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
برسبیل تذکرہ، لندن میں کوئلے کو گھروں اور صنعتی ایندھن کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس لئے 1952ء میں لندن میں مسلسل چار دن سموگ کی وجہ 4000 ہزار افراد موت کے منھ میں چلے گئے تھے ۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اسموگ اور درجۂ حرارت میں زیادتی کے اسباب و جوہات ہیں۔ پنجاب اورخیبر پختونخوا اور سندھ کے کچھ علاقوں میں اسموگ کے وقت سے پہلے بڑھتے ہوئے دھند نے عوام الناس کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، تاہم ہم دھند میں بھی غیر ملکی ہاتھ دیکھنے کے قائل ہیں۔ اپنی طرف جو ذمہ داری بنتی ہے اس کو ادا کرنے کے لئے تگ و دو نہیں کرتے۔ الٹا دوسروں پر الزام ڈال دیتے ہیں۔

کومت کو چاہئے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی، ایندھن کے بے جا استعمال اور خصوصاً ان دنوں میں کوئلہ اور کوڑا کرکٹ جلانے پر پابندی عائد کرے اوراس کا متبادل بھی فراہم کرے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسموگ کا بروقت علاج نہیں کیا گیا، تو شائد یہ عذاب ایک نئے بد ترین عذاب میں تبدیل ہوجائے، جس سے کاروبارِ زندگی وغیرہ ختم ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی، ایندھن کے بے جا استعمال اور خصوصاً ان دنوں میں کوئلہ اور کوڑا کرکٹ جلانے پر پابندی عائد کرے اوراس کا متبادل بھی فراہم کرے۔ اس طرح عوام میں اسموگ کے متعلق شعور اور آگاہی کو بیدرا کرنے کا عمل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی کو روک کر نئے درخت لگائے جائیں۔ دریاؤں کو آلودگی سے بچایا جائے اور آئندہ نسلوں پر رحم کیا جائے کہ اس میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔
وما علینا الاالبلاغ۔

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔