ترجمہ: عقیلہ منصور جدون
باربرا ایف والٹر (Barbara F. Walter) سانڈیاگو میں کیلیفورنیا یونی ورسٹی میں سیاسی سائنس دان ہے۔ اُس نے اُن بہت سارے لوگوں سے انٹرویو کیا جو خانہ جنگی کے وقت زندہ تھے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ان سب کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا محسوس نہیں کیا۔ ’’وہ سب حیران ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’حالاں کہ کسی ایسے شخص کے لیے جو اس کا مطالعہ کرتا ہے، یہ تو برسوں پہلے سے واضح ہے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین کرلیں، اگر آپ کی خواہش اس خیال کو رَد کرنے کی ہے کہ امریکہ میں دوبارہ خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ لیکن ملکی ٹوٹ پھوٹ کے مستقل خوف کے باوجود میرے دماغ کے لیے مکمل تباہی کے تصور کو سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ لیکن کچھ والٹر جیسے لوگوں کے لیے جو خانہ جنگی کا مطالعہ کرتے ہیں…… امریکہ کی ٹوٹ پھوٹ نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پر چھے جنوری کے بعد اگر بالکل واضح نہیں، تو بھی ناممکنات سے نہیں۔
اس مہینے آنے والی دو کتابیں خانہ جنگی کے قریب تر آنے سے متعلق خبردار کرتی ہیں، جسے زیادہ امریکی سمجھ نہیں رہے۔ ان کتابوں میں کیسے خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ والٹر لکھتی ہے۔ مَیں دیکھ چکی ہوں کہ خانہ جنگی کیسے شروع ہوتی ہے، مَیں ان نشانیوں کو جانتی ہوں جنہیں لوگ نہیں دیکھ پاتے…… اور میں یہاں ان علامات کو بہت تیزی سے نمودار ہوتے دیکھ رہی ہوں۔ کینیڈا کا ناول نگار اور نقاد سٹیفن مارچے اپنی کتاب میں زیادہ واضح اور مضبوط موقف دیتا ہے۔ اگلی خانہ جنگی امریکی مستقبل سے روانہ ہو رہی ہے (Next civil war dispatches from the American future) مارچے اس میں لکھتا ہے، ریاست ہائے متحدہ ختم ہو رہا ہے، سوال یہ ہے…… کیسے؟
ٹورنٹو کے گلوب اور میل میں ایک سکالر/ محقق جو متشدد تصادم کا مطالعہ کرتا ہے، نے حال ہی میں کینیڈا کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی سقوط کی تیاری کرلے۔ امریکی جمہوریت 2025ء تک ختم ہوسکتی ہے…… جو شدید قسم کے سیاسی عدم استحکام کا باعث ہوسکتا ہے، جس میں وسیع پیمانے پر شہری تشدد شامل ہوگا۔ اس نے لکھا، اگر جلدی نہیں تو 2030ء تک ملک میں دائیں بازو کی آمریت قایم ہو جائے گی۔ جیسا کہ جان حارث Politico/ سیاست (رسالہ) میں لکھتا ہے، سنجیدہ لوگ اب ’’خانہ جنگی‘‘ کو استعارے کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی نظیر (Precedent) سمجھتے ہیں۔
بے شک تمام سنجیدہ لوگ نہیں، خانہ جنگی کے محققین میں سے بہت تھوڑے سے جنہیں وہ جانتا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر ہے۔ یہ بات ہارورڈ کے سیاسی سائنس دان جوش کرٹزر (Josh Kertxer) نے ٹویٹر پر لکھی۔ حتی کے وہ بھی جو خانہ جنگی کی باتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ انتہائی خطرناک مقام پر ہے ۔
اٹلانٹک میں فنٹن او ٹول (Fintan O Toole) مارچے (Marche) کی کتاب کے بارے میں لکھتے ہوے تنبیہ کرتا ہے کہ خانہ جنگی کی پیشین گوئیاں پوری بھی ہوسکتی ہیں۔ آئرلینڈ کے لمبے تنازعے کے دوران میں ہر فریق کو دوسرے کے متحرک ہونے کا خطرہ رہتا تھا۔ وہ لکھتا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کرنا کہ امریکہ پُرتشدد طریقے سے ٹوٹ سکتا ہے، ایک بات ہے…… لیکن اس امکان کو ناگزیر قرار دینا بالکل دوسری بات ہے۔
مَیں او ٹول سے متفق ہوں کہ خانہ جنگی کو بھولا بسرا نتیجہ سمجھنا مضحکہ خیز ہے…… لیکن اب اس کا واضح نظر آنا بھی بہت برا ہے۔یہ حقیقت کہ خانہ جنگی خبطی قیاس آرائیوں سے سوچ کے مرکزی دھارے میں پہنچ گئی ہے…… بذاتِ خود ایک بحران کی علامت ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارا ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
جس قسم کی خانہ جنگی کے بارے میں والٹر اور مارچے پریشان ہیں، اس میں نیلی اور سرخ فوجیں کسی میدان جنگ میں آمنے سامنے نہیں ہوں گی…… بلکہ یہ گوریلا شورش ہوگی۔ جیسا کہ والٹر نے مجھے بتایا کہ وہ مارچے کی طرح بڑے مسلح تنازع کی منطقی تشریح پر انحصار کرتی ہے،جس میں سال میں کم سے کم ایک ہزار اموات ہوتی ہیں۔ جب کہ معمولی مسلح تصادم میں سال میں کم سے کم 25 افراد مرتے ہیں۔ اس تعریف کے مطابق مارچے دلیل دیتا ہے کہ امریکہ پہلے ہی سے شہری تصادم کی حالت میں ہے۔ ’’اینٹی ڈیفامیشن لیگ‘‘ (Anti Defamation League) کے مطابق 2018ء میں شدت پسندوں جن میں اکثریت دائیں بازو کی تھی، نے 54 لوگ، 2019ء میں 45 اور 2020ء میں 17 لوگ مارے، یہ تعداد میں کمی وبا کی وجہ سے تھی۔
والٹر دلیل دیتی ہے کہ خانہ جنگی کے طریقۂ کار کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنی آدھی سے زیادہ کتاب میں دوسرے ملکوں کے خانہ جنگی کے طریقے پر بات کرتی ہے، وہ بہت ملتے جلتے ہیں، جسے وہ اور دوسرے سکالرز "Anocracies” اینوکریسی کہتے ہیں۔ وہ ممالک جن میں نہ تو مکمل آمریت ہے اور نہ مکمل جمہوریت…… بلکہ ان کے درمیان کچھ ہے۔ انتباہی علامات میں تقریباً برابر سایز کے دو دھڑوں کے درمیان شدید سیاسی ’’پولرایزیشن‘‘ کاضافہ ہوا ہے…… جس میں ہر ایک کو دوسرے سے کچلے جانے کا اندیشہ ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ تشدد پر اکسانے والے زیادہ تر ماضی کے وہ طاقت ور گروہ ہیں…… جنہیں اپنی حیثیت کھو دینے کا خطرہ ہے۔ وہ نسلی گروہ جو جنگ شروع کرتے ہیں، ان کا دعوا ہوتا ہے کہ ملک ان کا ہے یا ان کا ہونا چاہیے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ ایک وجہ ہے، اگرچہ بائیں بازو میں بھی پُرتشدد عناصر موجود ہیں…… لیکن وہ اور مارچے دونوں کو یقین ہے کہ جنگ بائیں بازو والے شروع نہیں کریں گے۔ مارچے لکھتا ہے کہ بائیں بازو کی انتہا پسندی اہم ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرتی ہے جو دائیں بازو کی انتہا پسندی کی وجہ بنتے ہیں۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ دائیں بازو کی اکثریت خانہ جنگی کا تصور رکھتی ہے اور اس کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔ان میں سے کچھ جنہوں نے پچھلے سال کیپٹل پر دھاوا بولا، نے کالی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جو ’’بڑی خانہ جنگی‘‘ (Mega Civil War) کے نعرے سے سجی تھیں۔ دی بو گلو بوائس، ایک پُرتشدد ماضی پرست، جنونی حکومت مخالف تحریک نے اپنا نام ایک سول وار سیکویل کے ایک مذاق سے لیا۔ ریپبلکن مسلسل مسلح تنازعے کا خیال پیش کرتے رہتے ہیں۔ اگست میں نارتھ کیرولینا کے نمایندے میڈیسن کاتھارن نے کہا، اگر ہمارے الیکشن سسٹم میں مسلسل دھاندلی ہوتی رہی اور الیکشن چوری ہوتا رہا، تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا اور وہ ہے خوں ریزی…… اور یہ بھی کہا کہ وہ اگرچہ بد دلی سے لیکن ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
مشی گن کے گو گریچن کو اِغوا کرنے کی سازش کا حوالہ دیتے ہوے والٹر لکھتی ہے کہ جدید خانہ جنگی ان عسکریت پسندوں کی طرح "Vigilantes” چوکس رہنے والوں سے شروع ہوتی ہے، جو تشدد کو براہِ راست لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
والٹر کی تحریر کے کچھ حصوں سے میں بالکل متفق نہیں ہوں۔ مثال کے طور پر اس کا امریکہ کو ’’انوکریسی‘‘ (Anocracy) (جمہوریت اور آمریت کے درمیان) قرار دینا۔ مَیں سیاسی سائنس کے ان پیمانوں سے اختلاف نہیں کرتی جن پر وہ امریکہ کی جمہوری پسپائی کی خطرناک حد کو ظاہر کر نے کے لیے انحصار کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ آمریت سے جمہوریت کی طرف اور جمہوریت سے آمریت کی طرف جانے والے ممالک کے درمیان فرق کی اہمیت کم کر رہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یوگوسلاویہ جیسا ملک جسے سخت آمریت نے جوڑے رکھا، اسی آمریت کے جانے سے کیوں پھٹ پڑا ؟ نئی آزادیاں اور جمہوری مقابلے والٹر کے مطابق نسلی گروہ پیدا کرتے ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ جمہوریت سے آمریت کا سفر بھی اتنا ہی غیر مستحکم ہوگا؟ والٹر تسلیم کرتی ہے کہ آزاد خیال/ لبرل جمہوریتوں کا زوال نیا رجحان ہے…… لیکن ایسا کوئی بھی ملک خانہ جنگی کی طرف نہیں گیا۔ میرے خیال میں امریکہ میں ہنگری کی طرز کی دائیں بازو کی آمریت ایک ریپبلکن صدر کے ماتحت آنے کا زیادہ خطرہ ہے بہ نسبت وسیع شہری تشدد کے۔ اس نظریے کا انحصار دائیں بازو کے ایک رجعت پسند دھڑے پر ہے…… جو اپنی طاقت کے خاتمے کے ڈر سے بغاوت کر رہا ہے…… لیکن اپنے اقتدار کو قایم رکھنے کے لیے ہمارا دایاں بازو ہمارے نظام میں دھاندلی کر رہا ہے، اور انہیں ووٹرز کے چاہنے یا نہ چاہنے کی کوئی پروا نہیں۔اگرچہ فوری خانہ جنگی ممکن نہیں…… لیکن میرے خیال میں ہمارا اس جمہوریت کی طرف واپس جانا جس میں ہم امریکی پلے بڑھے زیادہ مشکل ہے۔
مارچے اپنی کتاب میں پانچ منظر نامے پیش کرتا ہے کہ کیسے امریکہ بغیر کسی نقصان کے اس صورتِ حال سے نکل سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ مجھے قابل فہم نہیں لگتے، مثلاً انتہائی دائیں بازو کے ساتھ واکو Waco اور Ruby Ridge اور Malheur National Wildlife Refuge جیسی وفاق کی محاز آرائیوں کو دیکھتے ہوئے میں مشکوک ہوں کہ ایک پُرعزم امریکی صدر، خود مختار شہری محاصرے کو توڑنے کے لیے، انسدادِ بغاوت کے نظریے پر یقین رکھنے والا فوجی جنرل بھیجے گا۔ میرے خیال میں وہ اس کی بجائے ایف بی آئی کو بھیجے گا۔ تاہم مارچے کی زیادہ تر وضاحتیں قابلِ تصور ہیں…… بہ نسبت اس مستقبل کے جس میں چھے جنوری دائیں بازو کی بغاوت کا عروج ہو، اور امریکہ بنیادی طور پر ٹھیک ہو جائے۔
یہ ظاہر کرنا/ یہ دکھانا بہت آسان ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، وہ لکھتا ہے، مجھے یہ سب آسان نہیں لگتا ۔
(مشعل گولڈ برگ (امریکہ) کا یہ آرٹیکل ’’دی نیویارک ٹایمز‘‘ کے انٹر نیشنل پاکستان ایڈیشن میں ہفتہ اور اتوار یعنی 8 اور 9 جنوری 2022ء کو شایع ہوا، عقیلہ منصور جدون، راولپنڈی)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔