آزاد جموں و کشمیر میں بھی بلدیاتی الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ وزیرِ اعظم سردار عبدالقیوم نیازی پُرعزم ہیں کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں…… وہ بلدیاتی الیکشن ضرور کرائیں گے۔ بلدیاتی الیکشن کے اعلان کو عوامی حلقوں میں زبردست طور پر سراہا جا رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں مقامی سطح کی لیڈرشپ کو الیکشن کے لیے متحرک کررہی ہیں۔ باقی صوبوں کے برعکس آزادکشمیر میں آخری بلدیاتی الیکشن1991ء میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جاتا رہا۔ اس طرح مقامی سطح کے اختیارات اور وسائل بھی ارکانِ اسمبلی کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
آزاد کشمیر میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ 1960ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے۔ صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرانا چاہا، تو اس کا پہلا تجربہ آزادکشمیر میں کیا گیا۔ تاہم زیادہ مؤثر اور متحرک بلدیاتی نظام 1978ء میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکمرانی کے وقت وجود میں آیا۔ جس کا تسلسل 1996ء تک برقرار رہا۔ اس دوران میں تین مرتبہ بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ ان انتخابات نے پورے آزاد جموں و کشمیر اور بالخصوص نوجوانوں میں زبردست سیاسی شعور اور جوش و خروش پیدا کیا۔ بے شمار نئے چہرے ابھرے جنہوں نے اگلے کئی سالوں تک سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں صدر پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی الیکشن ہوئے لیکن آزادکشمیر میں مختلف حیلے بہانے کرکے الیکشن نہیں کرائے گئے۔
گذشتہ 25 برسوں میں رائے عامہ کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کرانے کا مطالبہ بڑی شد و مد کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ الیکشن مہم میں ہر جماعت نے بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کیا لیکن برسرِاقتدار آکر وہ یہ وعدہ ایفا نہ کرسکے۔ حتیٰ کہ دسمبر 2013ء میں راجہ سجاد احمد خان جو کہ ایک وکیل ہیں، نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی…… تاکہ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کیا جاسکے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ہر چار سال بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد قانونی تقاضا ہے جس کی حکومت مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے بلدیاتی نظام کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’’آزاد جموں و کشمیر ایکٹ 1990ء‘‘ نافذ کیا تھا۔ مذکورہ قانون کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال ہے۔
بالآخر 6 مارچ 2015ء کو ایک طویل عدالتی بحث و مباحثے کے بعدآزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حکومت کو ایک ماہ کے اندر الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے اور 5 ماہ کے اندر یعنی ستمبر 2015ء سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ عدالتی فیصلے کو آزاد کشمیر میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اسے عوام کی فتح قرار دیا۔ کیوں کہ اس طرح نچلی سطح تک مالی وسائل اور انتظامی اختیارات کی منتقلی کی راہ ہموار ہوتی ہوئی نظر آئی۔ بیشتر اخبارات نے اپنے اداریوں اور کالموں میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ یہ مطالبہ کیا گیا کہ اگر حکومت گراس روٹ سیاسی اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے مخلص ہے اور خطے کی ترقی میں شہریوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہتی ہے، تو جلد از جلد انتخابات کرائے۔
افسوس! انتخابی فہرستوں پر نظرِ ثانی یا انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی جیسے لولے لنگڑے بہانے کرکے حکومت نے الیکشن کے عمل کو ٹال دیا۔ چناں چہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے کچھ لوگ عدالت میں چلے گئے اور بلدیاتی الیکشن التوا کا شکار ہوئے۔ اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت کے قانونی ماہرین کی کوشش ہے کہ جلد از جلد اس کیس کی سماعت اور فیصلہ ہو۔
بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی میں اسمبلی کے ارکان نے مقامی سطح کے مالی اور انتظامی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ رکنِ اسمبلی کی اجازت کے بغیر حلقے میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ ملازمتیں، تبادلے اور یہاں تک کہ ترقیاتی فنڈز بھی ممبرانِ اسمبلی کی رضامندی سے تقسیم ہوتے ہیں۔ سرکاری وسائل اور اختیارات کے استعمال سے انہیں الیکشن میں فائدہ ملتاہے۔ اگر آزاد کشمیر میں بلدیاتی نظام بحال ہو جاتا ہے، تو تمام مالی وسائل کا ایک معقول حصہ بلدیاتی اداروں اور کمیونٹی لیڈروں کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔ مقامی کونسلرز بااختیار ہوجائیں گے اور کمیونٹی کی براہِ راست ان تک رسائی ہوگی۔ گلی محلہ کے کاموں کی ذمہ داریاں کونسلروں کی ہوں گی اور ارکانِ اسمبلی قانون سازی پر توجہ دے سکیں گے۔
بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی بدولت جمہوری ادارے کم زور ہوئے اور سیاسی عمل میں نوجوان قیادت کی شمولیت کا عمل سست ہوا۔ خاندانی سیاست کی راہ ہموار ہوئی۔ عام لوگ بالخصوص نوجوان مرد اور خواتین کی سیاسی جماعتوں اور عمل سے لاتعلقی اور بے زاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ چند مستثنیات کے علاوہ اکثررہنما سیاست میں قرابت داروں کو پارٹی کارکنوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں عمومی طور پر خواتین اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کی نمائندگی کو بھی حکومت میں تقریباً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خواتین،جو کُل آبادی کا 51 فیصد ہیں…… ان کے لیے آزاد کشمیر کی اسمبلی میں صرف پانچ نشستیں مخصوص ہیں۔ موجودہ اسمبلی کے لیے پونچھ سے صرف ایک خاتون براہِ راست منتخب ہوسکی ہیں۔ سیاست میں نوجوانوں اور خواتین کے لیے مواقع کافی محدود ہیں۔ اگرچہ ایسی کوئی قانونی پابندیاں نہیں جو خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکتی ہوں…… لیکن روایات اورمعاشرتی اقدار ان کی سیاسی شرکت کو محدود کرتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان جو بلدیاتی نظام کے زبردست حامی ہیں…… نہ صرف آزادکشمیر حکومت کے بلدیاتی الیکشن کرانے کے فیصلہ پر حیران ہوئے…… بلکہ انہوں نے وزیرِ اعظم عبدالقیوم نیازی سے استفسار کیا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا بلدیاتی الیکشن کرانے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، تو آزادکشمیر کیسے الیکشن کرائے گا؟ وزیراعظم نیازی، جو خود بھی 80ء کی دہائی میں کونسلر رہے ہیں…… نے کہا کہ وہ ہر صورت میں الیکشن کرائیں گے اورسیاسی نظام میں نئی نسل کو حصہ دار بنائیں گے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے نہ صرف انہیں مبارک دی بلکہ مکمل حمایت اور تعاون کا بھی یقین دلایا۔
گذشتہ تین ماہ سے وزیرِ اعظم نیازی کی صدارت میں متعدد اعلا سطحی اجلاس ہوئے، جن میں وزیرِ بلدیات خواجہ فاروق احمد کے علاوہ اعلا سرکاری احکام نے بھی شرکت کی، تاکہ جلد ازجلد بلدیاتی الیکشن سے متعلقہ امور کو یکسو کیا جاسکے۔
وزیرِ اعظم عبدالقیوم نیازی نے گذشتہ دنوں ایک ملاقات میں بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں ایک نہیں بلکہ دو بار بلدیاتی الیکشن ہوں، تاکہ یہ نظام اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے بغیر عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ نئی سیاسی لیڈرشپ ہی اُبھر سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ خاص طور پر پارٹی صدر سردار تنویر الیاس جو سینئر وزیر بھی ہیں، نہ صرف بلدیاتی نظام کے پُرجوش حامی ہیں بلکہ پوری پارٹی بلدیاتی نظا م کی بحالی کی علم بردار ہے، تاکہ ہزاروں نئے چہرے سیاسی نظام کا حصہ بنیں اور اپنے اپنے علاقوں میں خدمت اور لیڈرشپ کے جوہر دکھا سکیں۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔