قارئین! ہمارے ہاں ابتدا سے یہ وطیرہ چلا آرہا ہے کہ ’’نان ایشو‘‘ کو ’’ایشو‘‘ بنایا جاتا ہے۔ جو مسئلہ نہ ہو، اُسی کو مسئلہ بناکر اہمیت دی جاتی ہے۔ حتی کہ اُسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اپنی ذاتی انا اور ضد کو منوانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔
جیسے ابھی حال ہی میں ’’الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘‘ (ای وی ایم) کا مسئلہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان غیرت اور انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان اور اُس کی حکومتی وزرا ہر مسئلے پر اپنی ضد اور انا کے لیے بہانہ بازی، حیلہ سازی اور دوسروں پر الزام تراشی کے لیے مشہور و معروف واقع ہوئے ہیں۔ عام انتخابات کے لیے اس مشین کے استعمال پر اپوزیشن کے اہم اور مضبوط تحفظات ہیں۔ خود بہ نفسِ نفیس انتخابات کرانے والے ادارے الیکشن کمیشن کے بھی اس مشین کے حوالے سے مجبوریوں کے ساتھ ساتھ مشکلات اور تحفظات ہیں…… اور جب الیکشن کمیشن نے اپنی تمام مجبوریاں اور تحفظات ایک ایک کرکے حکومتی ایوانوں میں تحریری طور پر پیش کردیے، تو بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ اُن تحفظات اور مشکلات پر باقاعدہ بات چیت کی جاتی…… اُسے مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔ اُس پر جانب داری اور اپوزیشن کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا گیا۔ اُسے آگ لگانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس طرح الیکشن کمیشن پر پارلیمنٹ کی جعلی منظوری اور آئینی پاس داری کی مرضی زبردستی تھوپی گئی۔ جعلی منظوری اس حوالے سے کہ پارلیمنٹ کی ایک ہی نشست میں 30 عدد آئینی بلوں کی پیشی اور منظوری عالمی طور پر ایک ریکارڈ ہے۔ کیوں کہ تحریک انصاف والے 126 دن کے ریکارڈ دھرنے کے بعد اب ہر فیصلے اور مسئلے پر ریکارڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے حکومتی اتحادیوں کا بھی عجیب و غریب موقف اور کردار ہے۔ پہلے تو ’’قائد لیگ‘‘ اور ’’متحدہ قومی موومنٹ نے اس مسئلے پر اپوزیشن پی ڈی ایم کا ساتھ دیا اور یہ واویلا کرتے رہے کہ ’’ای وی ایم‘‘ کے ایشو پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہمیں مشین تک رسائی بھی نہیں دی گئی کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کا طریقۂ استعمال کیا ہے؟ لیکن جب حکومتی وزرا نے اس بارے میں اُن سے ملاقاتیں کیں اور کچھ ’’چارہ‘‘ ڈالنے کا اشارہ کیا، تو اتحادیوں کے منھ میں پانی بھر آیا اور یک لخت اپنے موقف سے پھر گئے۔ مطلب یہ ہوا کہ ذاتی مفاد کے آگے عوامی اور حکومتی مفاد کوئی معنی نہیں رکھتا۔
قارئین! اب جیسے تیسے آئینی منظوری کے بعد ایک دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ اب حکومت اس حوالے سے اور اس پر عمل کرنے سے آنکھیں چرا رہی ہے اور پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ کیوں کہ اس پر عمل درآمد کے لیے الیکشن کمیشن نے جو سٹاف، بجٹ، آلات اور مشینوں کا مطالبہ کیا ہے، تو ’’انصافین‘‘ حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔ کیوں کہ اس موجودہ نا اہل حکومت کا یہ خاصا رہا ہے کہ یہ ہمیشہ پشتو کی مشہور کہاوت کے مصداق ’’کان ڈھونڈنے کی بجائے کتے کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔‘‘ یہ کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔
وجوہات یہ ہیں کہ
٭ الیکشن پر دوسرے اخراجات کے علاوہ 45 ارب روپے صرف مشینوں کے اخراجات ہیں۔
٭ تقریباً 8 لاکھ ای وی ایم مشینیں 2023ء تک تیار کرنی پڑیں گی۔
٭ ہر مشین پر کم از کم دو عدد ٹیکنیشن کھڑے کرنے پڑیں گے، تاکہ عوام کو مشین کے استعمال کا طریقہ بتاسکیں۔ اس طرح الیکشن کے دوسرے ہزاروں کی تعداد میں سٹاف کے علاوہ 16 لاکھ تجربہ کار ٹیکنیشنوں کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
٭ الیکشن کے روز عام ووٹر کو مشین کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا طریقۂ کار سمجھاتے ہوئے اس حساس موقع پر امیدواروں کی طرف سے کسی بھی وقت تشویش ناک صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے اور معاملہ قتل و غارت تک جاسکتا ہے۔
اس بارے میں حکومتی ہٹ دھرمی اس حد تک گئی تھی کہ اگر الیکشن کمیشن ہماری بات نہیں مانتی، تو ہم ان کا بجٹ روک دیں گے۔ حالاں کہ آئینی طور پر حکومت الیکشن کمیشن کا بجٹ دینے کی پابند ہے۔ حکومتی انکار کی صورت میں الیکشن کمیشن کو حق ہے کہ وہ اپنا بجٹ براہِ راست قائمہ کمیٹی سے وصول کرے…… لیکن اس نے اس بارے میں برد باری اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور پشتو کی ایک اور کہاوت ’’زہر دینے کی بجائے گڑ سے کام چلاتے ہوئے‘‘ حکومت سے مطلوبہ اخراجات کا مطالبہ کرکے اُسے منجھدار میں پھنسا دیا کہ ’’بھئی عمران صاحب! پیسے دو، لوازمات دو ہم تیار ہیں۔‘‘ اب بجائے اس کے کہ حکومت اپنی نااہلی اور غلطی کا اعتراف کرے…… لیکن وہ وہی روایتی بہانہ بازی و حیلہ سازی سے کام چلا رہی ہے۔
قارئین! ایک عام ووٹر کے مشین کے ذریعے ووٹ استعمال کرنے اور ڈالنے کے مشکل طریقۂ کار پر وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری فرما رہے ہیں کہ یہ بہت سہل اور آسان طریقۂ کار ہے…… جس ووٹر کو موبائل کے استعمال کا طریقہ آتا ہے، وہ اس مشین کو آسانی سے استعمال کرسکتا ہے۔ اب یہاں پر چودھری صاحب چند حقائق کو نظر انداز کررہے ہیں:
٭ پاکستان میں کتنے فیصد لوگوں کے ساتھ موبائل ہیں…… اورکتنے فیصد اس کا استعمال کرسکتے ہیں؟ اکثر لوگوں کے پاس موبائل ہوتا ہے لیکن وہ استعمال کے وقت دوسروں کو دے دیتے ہیں کہ فلاں نمبر نکال کر ملا دیجیے۔
٭ عورتوں کے پاس کتنے فیصد موبائل ہیں اور وہ اس کا استعمال جانتی ہیں؟
٭ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موبائل کو اگر مشین کے استعمال کا معیار گردانا بھی جائے، تو موبائل دن میں سیکڑوں بار استعمال ہوتا ہے، لہٰذا ایک اَن پڑھ انسان بھی کسی حد تک اسے سیکھ سکتا ہے…… لیکن ای وی ایم مشین پانچ سال میں صرف ایک بار استعمال ہوتی ہے، تو ضروری نہیں کہ موبائل استعمال کرنے والا انسان ای وی ایم پر ووٹ کا صحیح استعمال کرنے والا ووٹر ثابت ہوجائے۔ لہٰذا حکومتی ایوانوں میں اس مشین کو استعمال کرنے پر اس لیے زور ڈالا جارہا ہے کہ ذرا ساتکنیکی فالٹ سارے پراسس پر پانی پھیر سکتا ہے یا ارادتاً ٹیکنیکل فالٹ کا سہارا لے کر منظم دھاندلی کے ذریعے انتخاب جیتا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ عام حالات میں پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات نہایت کم نظر آرہے ہیں۔
قارئین! تحریر سمیٹتے ہوئے اتنا عرض کروں گا کہ آنے والے 2023ء کے انتخابات ابھی سے متنازعہ ہوگئے ہیں اور عمران کی ’’مشین پالیسی‘‘ پاکستان کو ایک شدید بحران سے دوچار کرنے جا رہی ہے۔ کیوں کہ پہلے سے تمام موجودہ بحرانوں کی شدت کے پارے آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خود عمران خان اس بحران کا شکار ہوجائیں اور 1977ء کے الیکشن بحران کی طرح خود اس مرد نا مراد کا انجام بھٹو جیسے نامراد کی طرح نہ ہو۔
اللہ اس ملک کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔