ہم تو سمجھتے تھے کہ اپنے ’’ہینڈ سم‘‘ وزیراعظم کی وجہ سے دنیا میں ہماری قیمت بڑھ گئی ہے۔ شلوار قمیص میں بیرونِ ملک دوروں سے مارکیٹ ویلیو بڑھ چکا ہے اور اُردو میں پند و نصائح المعروف ’’قوم کو خطاب‘‘ کرنے سے مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے…… لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ ہمیں تو ایک تسلی تھی کہ بھلے مہنگائی ہے اور ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا ہے…… لیکن کم از کم ہماری حیثیت میں بہتری آئی ہے…… لیکن اچھا ہوا کہ ہمارے ہینڈ سم وزیراعظم نے کھلے میدان میں بانڈا پھوڑ دیا اور ارشاد فرمایا کہ پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔
مجھے یار دوستوں کی اس رائے اور ’’بدظنی‘‘ سے مکمل اختلاف ہے کہ پاکستان کو ’’سستا ترین ملک‘‘ قرار دینے سے اپنے پیارے وزیراعظم کا اشارہ مہنگائی کا نہ ہونے کی طرف تھا۔ اپنا وزیراعظم تو قومی شہزادہ ہے۔ زیادہ تر وقت ایک خاص روحانی کیفیت میں رہتا ہے اور اکثر باتوں کا انہیں ٹیلی وِژن سے علم ہوجاتا ہے…… لیکن خاتونِ اول اور کابینہ کے ممبران بھی مہنگائی سے لاعلم ہوں…… یہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم نے ملک کو سستا ترین ان معروف معنی میں نہ کہا ہوگا جیسا کہ اخباری نمائندے سمجھے ہیں۔
پیارے وزیراعظم صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اب بھی ’’دنیا کا سستا ترین ملک‘‘ ہے۔ سستا نہ ہوتا، تو یہ عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی پڑا ہوتا؟
اس کی کچھ قیمت ہوتی، تو یہ اپنے معصوم باشندوں کے قاتل کلبھوشن کے لیے قانون سازی کرتا؟
کچھ عزت ہوتی، تو اس کا وزیراعظم دوسرے ملک کے ایک شہزادے کا جہاز استعمال کرتا اور پھر ایک کال پر اس سے اُتر کر دوسرے جہاز میں سوار ہوتا؟
کوئی حیثیت ہوتی، تو اس کا کسی سے ڈکٹیشن نہ لینے والا وزیراعظم مہاتیر اور اردوان کو بیچ چوراہے میں چھوڑتا اور ان کے ساتھ مشاورت سے بلائے گئے اجلاس سے معذرت کرتا؟
کوئی وقعت ہوتی، تو اس کا وزیراعظم لوگوں کو فون کالز وصول کرنے کے لیے ترلے کرتا؟
وزیرِاعظم صاحب نے سچ بولا ہے اور مینارِ پاکستان میں کیا گیا اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ واقعی یہ سستا ملک ہے۔ سستا نہ ہوتا، تو چوروں کو پناہ دینے والے ممالک اور منی لانڈرنگ کے اڈے رکھنے والے ممالک اسے ایف اے ٹی ایف کے نام سے بلیک میل کرتے؟
یہ ملک کوئی تگڑ رکھتا، تو اس کے باشندوں کو ماورائے عدالت ’’فیک انکاؤنٹرز‘‘ میں مارنے والے آزاد گھوم رہے ہوتے؟
کوئی مقام یا ویلیو رکھتا، تو اس کے باشندے غیر قانونی طور پر غائب ہوتے؟
کوئی طاقت رکھتا، تو اس کی شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہوتی اور خود یہ ہر جمعے کو ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا؟
سستا نہ ہوتا، تو یہ بلوائیوں میں ہزار ہزار کے نوٹ تقسیم کرنے دیتا اور اپنے رکھوالوں کو مارنے اور بم سے اُڑانے والوں کے ساتھ معاہدے کرتا؟
اس لیے مَیں آج اپنے وزیراعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس نے سچ بولا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے مقتدر حلقوں کی وجہ سے ہم کل بھی سستے تھے اور ہم آج بھی دو ٹکے کے لوگ ہیں۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری کوئی قیمت ہوتی، تو ہمارے بے گناہوں کااتنا خون بہہ چکا ہے کہ شہرِ اقتدار اسلام آباد شریف، شہرِ شہسوار و سپہ سالار پنڈی شریف اور شہرِ داتا دربار و شیر سرکار لاہور شریف، تینوں سمیت اپنے ہرغلامِ مسند و اختیار، مجاور آستانہ و مزار اور صاحبانِ جبہ و دستار اس میں ڈوب جاتے…… لیکن افسوس ہم بہت سستے ہیں…… بہت ہی سستے……! اور یہ حقیقت جب تک ہم تسلیم کرکے اپنی قیمت بڑھائیں گے نہیں، تب تک یوں ہی گمنام مرتے رہیں گے۔
اب تو سنا ہے کہ ایک صاحبِ کرامت تو یہاں تک کہتا پھرتا ہے کہ ’’کتے کی موت مرنے والی بات‘‘ اب باقی نہیں رہی ۔اب توکتے بھی ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ ’’رات کو احتیاط سے گھوما کرو…… ورنہ انسان (بلکہ پاکستانی) کی موت مارے جاؤگے ۔‘‘
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔