خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں، خاص کر سوات اور دیگر بالائی علاقوں میں موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ ہی چپلی کباب کی مانگ میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ لوگ وجود کو گرم رکھنے کے لیے چپلی کباب کی دکانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ مویشیوں کی چربی سے نکالے جانے والے تیل (ڈَل) میں تیار ہونے والے کباب کو لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اس حوالہ سے کباب کے ایک دکان دار خالد خان نے بتایا کہ موسمِ گرما میں بھی چپلی کباب تیار کیا جاتا ہے، لیکن موسمِ سرما میں لوگ اسے زیادہ کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی دکانوں پر کھانے والوں اور پارسل لے جانے والوں کا رش ہوتا ہے۔
کباب کھانے کی خاطر آنے والے ایک مقامی سرکاری سکول کے پرنسپل ظہور احمد نے بتایا کہ یہ سردیوں کی خاص سوغات ہے۔ کھانے میں ذائقہ دار ہونے کے علاوہ اس سے وجود کو گرمی بھی ملتی ہے۔
چپلی کباب میں کون کون سے اجزا استعمال ہوتے ہیں؟ اس بارے میں کباب بنانے والے ایک دکان دار ارشد علی نے بتایا کہ اس میں بھینس کا بغیر ہڈی گوشت، پیاز، ٹماٹر، انڈے، گرم مسالہ کے ساتھ پانچ قسم کے دیگر مسالہ جات اور لال اور ہری مرچ شامل کی جاتی ہے۔ اس کو پکانے سے پہلے اس کے اوپر نلی (گودا) رکھ کر اس کے ذائقے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کباب کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ باہر ممالک میں چربی کے تیل کے استعمال پر پابندی کی وجہ سے اس طرح کا کباب کوکنگ آئل میں بنانا مشکل ہے۔ اس لیے باہر ممالک میں بسنے والے پاکستانی اور خاص کر پختون اسے پاکستان سے منگواتے ہیں۔ وہاں جانے والے لوگ اپنے ساتھ اس کو سوغات کے طور پر لے کر جاتے ہیں جہاں مقیم پاکستانی اس کو ’’مائیکرو ویو اَون‘‘ میں گرم کرکے کھاتے ہیں۔
کباب کی مذکورہ دکانوں میں گرم کڑاہی سے نکلنے اور اسے گاہک کو میز پر رکھنے کے بعد اس کے ساتھ نارنج، کچی پیاز اور کٹی ہوئی سبز مرچ پیش کی جاتی ہے۔ کباب کھانے والوں کا کہنا ہے کہ نارنج کا جوس، کچی پیاز اور کٹی ہوئی ہری مرچ گرم گرم کباب کا لطف دوبالا کرتی ہے۔
ایک پاؤ کباب کی قیمت اس سے پہلے 100 روپے تھی، لیکن حالیہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی قیمت 120 سے 140 روپے تک ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔