شمیر خان میرے ساتھ سعودیہ میں کام کرتا تھا۔ بنیادی طور پر وہ بھارتی بنگال سے تھا…… لیکن چوں کہ اس کا زیادہ بچپن لکھنؤ اور جوانی ممبئی میں گزری تھی، اس وجہ سے وہ بنگالی کے ساتھ لکھنوی شستہ اُردو اور مہاراشٹرا انداز کی ہندی بھی بولتا تھا۔ موقع کے مطابق وہ لکھنوی انداز میں ’’محترم آپ کنفیوز ہیں!‘‘ بھی کہہ لیتا تھا اور طنز میں ممبئی کے سڑک چھاپ موالی انداز میں ’’سالا تو کنفیوج ہے!‘‘ بھی کہہ دیتا تھا۔
اس ’’کنفیوز‘‘ کی تشریح سے پہلے ایک واقعہ لکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ایک عظیم صوفی، دانشور، مصنف، ڈراما نگار، ناول نگار، مرحوم اشفاق احمد پاکستان ٹیلی وِژن پر ایک پروگرام کیا کرتے تھے، جس میں وہ کچھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو باقاعدہ لطیف انداز میں لیکچر دیا کرتے تھے۔ ایک لیکچر میں انہوں نے ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میرا قریبی تعلق برطانیہ کے ایک جیک نامی نوجوان سے ہوگیا…… جو فطری طور تصوف کی طرف مائل تھا۔ یہ تعلق اتنا بڑھا کہ وہ میرے پاس لاہور آنا شروع ہوگیا۔ اسی سلسلے میں آخری بار وہ لاہور آیا۔ اس دفعہ وہ عجیب انداز میں صبح نکلتا اور شام کو گھر واپس آتا۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ دن بھر کہاں جاتے ہو؟ تو اس نے بتایا کہ ایک پیر صاحب کے پاس…… اور ان سے بہت کار آمد نصیحتیں سنتا ہوں۔ مجھے بہت تجسس ہوا کہ یہ کس پیر کے پاس جاتا ہے؟ سو اگلے دن میں نے اس کا پیچھا کیا اور معلوم ہوا کہ راوی کنارے وہ ایک نورانی چہرے والے بزرگ کے پاس راز و نیاز میں مصروف ہے۔ اب اگلے دن مَیں جا کر ان بزرگ سے ملا، تو عجیب انکشاف ہوا کہ پیر صاحب انگریزی تو دور اُردو بھی صیح نہیں جانتے۔ خالصتاً ٹھیٹھ پھوٹھواری انداز میں پہاڑی بولتے ہیں…… جب کہ جیک کو اُردو میں بس ’’اسلام علیکم‘‘، ’’کیا حال ہے‘‘، ’’ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘ ہی آتا ہے۔ تو یہ آپس میں گفتگو کیا کرتے ہیں! خیر…… اس سے اگلے دن جیک نے اپنا سامان پیک کیا۔ مجھ اور بانو قدسیہ سے اجازت لی اور بس اتنا بتایا کہ پیر صاحب نے یہاں سے کئی اور ہجرت کا حکم دیا ہے۔ مَیں جا رہا ہوں۔ وہ کہاں جا رہا ہے؟ یہ بات بتانے کی اس کو اجازت نہیں…… اور چلا گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ایک آدھ دن بعد واپس آجائے گا…… لیکن اس نے نہ آنا تھا…… نہ آیا۔ مَیں اور بانو قدسیہ پریشان و خوف زدہ ہوگئے۔ سو چند دن کی رسمی تلاش کے بعد مَیں نے برطانیہ اس کے والدین سے رابطہ کیا…… تاکہ ان کی اجازت کے بعد اس کی تلاش سرکاری طور کی جائے…… لیکن اس کے والد جو کہ ایک ڈاکٹر تھے…… نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ جیک کسی پہاڑی علاقہ میں بہ خیر و عافیت ہے اور ہم سے اس نے رابطہ کیاہے ۔ مَیں مطمئن ہوگیا اور چند دن بعد بھول گیا اس بات کو……اور پھر بہت عرصہ بعد مجھے کسی سرکاری کام سے سوات کے علاقہ میں جانا پڑا۔ ایک مضافاتی جگہ میں، مَیں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بہت اہتمام سے کہیں پیدل جا رہے ہیں۔ میرے استفسار پر مقامی ساتھیوں نے بتایا کہ یہاں ایک روحانی شخصیت ہیں جو بظاہر غیر ملکی ہیں…… لیکن بہت خوب صورت پشتو میں وہ لوگوں کو وعظ کرتے ہیں۔ میری خواہش پر انہوں نے بتایا کہ آپ ان سے کل صبح سے دوپہر تک مل سکتے ہیں۔ ظہر کے بعد وہ کسی سے نہیں ملتے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور مَیں اسی دن عصر کے وقت وہاں سے نکل پڑا…… لیکن جب وہاں پہنچا، تو مجاروں نے روک لیا۔ تب میں نے ان کو تعارف کروایا اور بتایا کہ میں بہت مصروف ہوں۔ آپ مہربانی کریں۔ وہ میری سرکاری حیثیت سے مرعوب تو ہوئے…… لیکن کہا کہ آپ انتظار کریں۔ ہم سائیں جی سے بات کرتے ہیں۔ آپ کی ملاقات پیر صاحب کی اجازت سے ہی مشروط ہے۔ بہرحال وہ گئے اور چند منٹ بعد آکر مجھے کہا کہ آئیں۔ مَیں ان کے ساتھ اس کچے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں پیر صاحب موجود تھے۔ پیر صاحب نے مجھے دیکھتے ہی احترام سے سینے سے لگایا…… جو مقامی لوگوں کے مطابق غیر روایتی تھا ۔ پھر ان کو اُردو میں کہا کہ یہ میرے والد کی جگہ ہیں۔ یہ سن کر مَیں نے غور سے دیکھا اور بے ساختہ میرے منھ سے نکلا جیک تم……! اور جیک نے بتایا…… ’’اب مَیں جیک نہیں…… عبداﷲ ہوں!‘‘ دراصل اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ پھر چند رسمی جملوں کے بعد اس نے بتایا کہ پیر صاحب کے حکم پر میں یہاں آگیا…… بے سر و سامانی کی حالت میں۔ یہاں کھلے میدان میں بیٹھ گیا۔ آگے سرسبز زمینوں کا ایک لا متناعی سلسلہ تھا۔ مَیں نے ایک درخت کی سوکھی شاخ اُٹھائی اور خیالی طور پر زمین کی تقسیم شروع کر دی کہ اس جگہ سبزیاں اگائی جائیں یہاں فصلیں۔ اتنے میں مقامی لوگ آگئے۔ پہلے تو وہ مجھے جاسوس سمجھ بیٹھے۔ پھر جب ان کو حقیقت معلوم ہوئی، تو کچھ دوستی سی ہوگئی۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ زمینیں کچھ بھی نہیں۔ المختصر، میری ان سے ڈیل ہوگئی۔ انہوں نے زمین کے بدلے یہ سودا کیا کہ میں ان کے چار لڑکے برطانیہ بھجوادوں۔ مَیں نے قبول کرلیا۔ تب یہ کوئی مشکل کام نہ تھا اور پھر میرا باپ ڈاکٹر اور ماں استاد تھی۔ سو بنا کسی دقت کے مَیں نے ان کے لیے ویزے منگوائے اور زمین کا مالک بن گیا۔ وہ چار نوجوان برطانیہ چلے گئے اور مَیں نے یہ زمین آباد کرلی۔ اب میں بہت پُرسکون ہوں۔ زمین داری کرتا ہوں۔ پشتو بولتا ہوں اور زمینوں کی زیادہ تر فصل مقامی غریب آبادی میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ فارغ وقت میں تبلیغ کرتا ہوں ۔مقامی لوگ بہت عزت سے پیش آتے ہیں۔ خدا کے بعد یہ سب میرے راوی والے پیر صاحب کا کرم ہے۔‘‘
اشفاق احمد صاحب آگے کہتے ہیں: ’’آخر میں اس نے بہت عجیب سوال کیا۔ کہتا ہے کہ سر ایک سوال ہے…… جس سے میں کنفیوز ہوں۔ اور وہ یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ زمین کے سابقہ مالکان احمق تھے جنہوں نے گھاٹے کا سودا کیا…… جب کہ وہ مجھے احمق سمجھتے ہیں کہ میں برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کو چھوڑ کر یہاں ہل چلا رہا ہوں۔ آپ بتائیں…… خسارے میں کون رہا؟‘‘ اشفاق صاحب نے تب یہ سوال تمام ناظرین سے کیا۔
دوسری طرف مَیں اِسی سوال کو لے کر اپنے ایک پاکستانی کولیگ شکیل عباسی کے پاس گیا…… اور اس سے یہی سوال کیا۔ عباسی صاحب سوچ میں پڑگئے…… تب میرے انڈین دوست نے اپنا یہ مشہور جملہ بولا کہ ’’بھائی کنفیوج ہے!‘‘مَیں نے شمشیر سے وجہ پوچھی، تو وہ بولا: ’’سکیل بھائی دل سے یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ وہ چار سواتی جو برطانیہ گئے، فائدے میں رہے…… لیکن چوں کہ دوسری طرف ایک نو مسلم ہے جو کردار میں اعلا ہے، اس وجہ سے یہ کہنے کی جرأت نہیں کر پا رہے ہیں…… اور آپ یقین کریں، اس کے بعد مَیں نے درجنوں لوگوں سے یہ بات کی اور تقریباً سب ہی مجھے ’’کنفیوج‘‘ ہی لگے۔
بہرحال یہ پرانا واقعہ مجھے اس وجہ سے یاد آیا کہ کل میری ملاقات ایک اور شخص سے ہوئی۔ میرا ایک دوست ہے۔ بہت جذباتی تھا تحریک انصاف بارے ۔ چند دن قبل میری اس سے اچانک ملاقات ہوئی۔ مَیں نے اس کو کہا کہ ’’سناؤ بھئی، تبدیلی آگئی؟‘‘ تو قریب موجود ایک پرانے جیالے نے اس حکومت کی کارگردگی، خان صاحب کے پرانے دعوؤں کے تناظر میں بیان کر دی۔ مَیں نے مسکرا کر اپنے انصافین دوست کو کہا، ’’کیوں بھئی! کیا خیال ہے؟ آئندہ جیالے بنو گے یا متوالے یا پھر پہلے کی طرح پرجوش ٹائیگر ہی رہو گے؟‘‘ میرا انصافی دوست سوچ میں پڑگیا، تو جیالے نے کہا، ’’گیلانی صاحب! آپ کا دوست کنفیوز سا ہوگیا ہے۔ اب اندر سے اسکو بھی معلوم ہے کہ خان صاحب نے بہت محنت سے دھوکا دیا ہے…… لیکن خان صاحب کا بہرحال ایک امیج صادق و امین والا ہے، یا بنا دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کا کنفیوز ہونا فطری ہے۔‘‘
جوں ہی جیالے کے منھ سے مَیں نے یہ سنا، تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں میرے سامنے شمشیر خان کی شکل آگئی اور ایسا لگا جیسا شمشیر خان کہہ رہا ہو، ’’بھائی کنفیوج ہے!‘‘ اور قارئین یقین کریں…… اس وقت اکثر انصافین ’’کنفیوج‘‘ ہیں۔ مطلب ان کو اندر سے محسوس ہوگیا ہے کہ خان صاحب بری طرح ناکام ہوگئے ہیں…… لیکن وہ اس کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرپا رہے۔ سو یہ بہت قابلِ فکر ہے محترم عمران خان صاحب کی خاطر کہ جب ان کے اپنے سقہ ٹائیگر خود کسی اظہار کا حوصلہ نہیں کر پا رہے، تو وہ آئندہ الیکشن میں کس طرح عوام کو اس بات پر قائل کر پائیں گے کہ وہ ووٹ ’’بلے‘‘ کو دیں۔ اس لیے عزت مآب جناب وزیراعظم اس کو سنجیدہ لیں۔ آپ کے پاس وقت بہت کم ہے۔
سر! اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے، تو ان قریب دو سالوں میں زیادہ نہیں، تو کم از کم اپنے ٹائیگرز کا یہ مخمصہ تو کم کریں۔ تاکہ پھر کوئی یہ نہ بولے کہ ’’بھائی کنفیوج ہے!‘‘
اس کے ساتھ ہم انصافین سے بھی ایک بار پھر یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اب ’’سلفی کلچر‘‘ سے نکل کر…… کھل کر اپنی مقامی قیادت کو اس صورتِ حال کی طرف متوجہ کریں۔ نہیں تو ہم یہی بولیں گے کشمشیر خان کی زبانی کہ ’’بھئی! ساری تحریکِ انصاف ہی کنفیوج ہے۔‘‘
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔