آپ سوتیلے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے تو بخوبی واقف ہیں…… مگر انسانوں کے علاوہ علاقے اور اضلاع بھی سوتیلے ہوتے ہیں۔ یہ بات شاید آپ کے لیے تعجب کا باعث ہو۔ مَیں آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کے ساتھ دہائیوں سے روا رکھے جانے والے سوتیلے سلوک کی فائل آپ کی میز پر رکھ کر آپ کے انصاف کا منتظر ہوں۔
مانا کہ دنیا میں ہر جگہ غربت ہے…… مگر نیلم میں دہائیوں سے جوکھیل کھیلا جارہا ہے، وہ دنیا میں کہیں بھی ممکن نہیں۔ نیلم کے 80 فیصد لوگ وادی سے باہر کام کرتے ہیں!کیوں؟ کیا یہ شوق ہے، کیا یہ دولت اور پیسے کی حرص ہے، یا یہ مجبوری ہے؟ جی…… یہ مجبوری ہے! کیوں کہ آج تک نیلم کو دانستہ طور پر پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ نیلم کو پیرس بنایا جائے…… مگر کم از کم اسے دوسرے اضلاع جیسا ضلع تو بنا دیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد صنعتوں پر ہوتی ہے۔ صنعتوں سے نہ صرف لوگوں کوروزگار ملتا ہے…… بلکہ حکومت ٹیکس بھی اکٹھا کرتی ہے…… مگر نیلم کے معاملے میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ نیلم میں حکومت ٹیکس تو لیتی ہے…… مگر کوئی صنعت نہیں لگاتی۔ یوں بے روزگاری نہ ہوگی، تو کیا ڈالر برسیں گے؟
جنگلات میں نیلم، آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں پہلے نمبر پر ہے۔ مگر اس میں لکڑی کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا گیا۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی سال 2018ء کے اعداد و شمار کی بُک کے مطابق آزاد کشمیر میں کل 2576 صنعتیں ہیں اور نیلم کے حصے میں ایک بھی نہیں۔ آج تک نیلم کا حال جوں کا توں ہے۔ کیا نیلم آزاد کشمیر کا حصہ نہیں…… کیا نیلم میں انسان نہیں رہتے…… کیا ہمار کوئی حق نہیں…… کیا ہم صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟
لکڑی نیلم سے آتی ہے اور کارخانے آپ دوسرے اضلاع میں لگائیں…… کیا یہ انصاف ہے؟ یہ نیلم کے ایوانوں میں بیٹھے موجودہ اور سابقہ لوگوں کی بے بسی ہے، بے حسی ہے یا ملی بھگت……!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
جی، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ کیوں کہ ان حاکموں کو بھی آپ ہی اپنے ووٹ کے ذریعے لے کے آتے ہیں۔
مظفر آباد میں لکڑی کے 38 کارخانے، پونچھ میں 37، کوٹلی میں 62، میرپور میں 56، بھمبر میں 30، لکڑی کے کل 223کارخانے اور نیلم میں ایک بھی کارخانہ نہیں لگایا گیا۔
ٹیکسٹائل کی صنعت کے آزاد کشمیر میں 06 کارخانے اور نیلم میں ایک بھی نہیں۔ آٹے کے 5، نیلم میں ایک بھی نہیں۔ کاغذ سازی کی صنعت کے 2، نیلم میں ایک بھی نہیں جب کہ نیلم جنگلات میں پہلے نمبر پر ہے۔
اسلحہ سازی کے ملک میں 42 کارخانے اور نیلم میں کوئی بھی نہیں جب کہ یہ لائن آف کنٹرول کا علاقہ ہے۔
آزاد کشمیر میں 829 پولٹری فارم ہیں۔ مظفر آباد میں 90، پونچھ میں 120، کوٹلی میں 75، میر پور میں 164، بھمبر میں 180 اور نیلم میں کوئی بھی نہیں۔
نیلم میں پولٹری فارمنگ ہر گھر میں ہوتی ہے۔ ہم اس کو صنعت میں بدل کر روزگار مہیا کرسکتے ہیں۔ وادیِ نیلم میں گھروں میں کی جانے والی مرغ بانی بھی بیماریوں کاشکار ہے۔ وادی کی 60 فی صد مرغیاں مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ دیگر اضلاع میں فارمز لگائیں، لیکن نیلم میں مرغیوں کی بیماریوں کے لیے ہی کوئی بندوبست کردیں۔
توبہ توبہ کیسی باتیں کرتے ہیں شاہ جی…… نیلم میں تو ہم انسانوں کے لیے دوائیاں اور ڈاکٹر مہیا نہیں کرتے۔ آپ کو مرغیوں کی فکر ستائے جارہی ہے! جنہوں نے کارخانے لگانے ہیں ان کا روزگار تو لگا ہوا ہے۔ انہیں کسی کے روزگار کی کیا فکر! وہ تو پانچ سال بعد جیسے تیسے کر کے ووٹ لے ہی جاتے ہیں…… مگر اب شاید اتنا آسان نہ ہو۔
سٹیل ورکس صنعت کے مظفر آباد میں 25، پونچھ میں 60، کوٹلی میں 181، میر پور میں 88، بھمبر میں 50 کارخانے ہیں جب کہ ضلع نیلم میں کوئی کارخانہ نہیں۔
پلاسٹک انڈسٹری کے آزاد کشمیر میں 19 کارخانے ہیں نیلم میں کوئی بھی نہیں۔ سٹیل ری رولنگ فرنیچر کی صنعت کے آزاد کشمیر میں 11 کارخانے اور نیلم نظر انداز۔ پرنٹنگ پریس کی صنعت کے مظفرآباد میں 10، پونچھ میں 15، کوٹلی میں 10، میر پور میں 24، بھمبر میں 3 جب کہ نیلم میں کوئی کارخانہ نہیں۔ آزاد کشمیر میں 186 کرش مشینیں موجود ہیں۔ مظفر آباد میں 6، پونچھ میں 60، کوٹلی میں 34، میرپور میں 35، بھمبر میں 51 اور نیلم میں بس انسان کرش کرنے کی مشینیں پائی جاتی ہیں۔ آر سی سی پائپ کی صنعت کے کل 115 کارخانے موجود ہیں۔ مظفر آباد میں 3، پونچھ میں 50 کوٹلی میں 41، میرپور میں 16 اور بھمبر میں 5۔ نیلم میں ووٹ لینے کے بعد ہاتھ ہلایا جاتا ہے ’’بائے بائے‘‘ کرنے کے لیے۔
فوڈ انڈسٹری کے آزاد کشمیر میں 144 کارخانے ہیں۔ مظفر آباد میں 40، پونچھ میں 60، کوٹلی میں 22، میرپور میں 18، بھمبر میں 4 اور نیلم میں کوئی بھی کارخانہ نہیں۔ جوتا سازی کی صنعت کے 2 کارخانے ہیں۔ دونوں میرپور میں ہیں جہاں کی 90 فی صد آبادی بیرونِ ملک مقیم ہے۔ شاید کوٹھیوں میں جوتے رکھتے ہوں۔ نیلم میں کوئی کارخانہ نہیں۔ شاید اس لیے نہیں لگایا ’’نہ جوتوں کا کارخانہ ہوگا اور نہ جوتے پڑنے کا خدشہ!‘‘
آٹوانڈسٹری کے 2 کارخانے دونوں میر پور میں ہیں، جہاں سب کے پاس ذاتی سواری موجود ہوتی ہے۔ ہمیں تو نیلم کے کرائے نامے کے لیے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ کارخانے لگوانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کاسمیٹکس کی صنعت کے کل 3 کارخانے ہیں۔ 2 میرپور اور 1 بھمبر میں۔ وادیِ نیلم والے فی الحال ’’نسواکے تے گزارا کرسکو۔‘‘ پی وی سی پائپ کی صنعت کے کل 5 کارخانے ہیں۔ 2 مظفر آباد اور 3 میرپور میں۔
ملک میں برف بنانے کے 17 کارخانے ہیں۔ مظفر آباد اور پونچھ میں ایک ایک، کوٹلی میں 3، میرپور میں 8 اور بھمبر میں 4۔ نیلم میں بس نقارخانے ہیں یا فائلوں کے سرد خانے ہیں۔ برف ہمیں چاہیے بھی نہیں۔ برف میں ہم خود کفیل ہیں بلکہ اگر حکومت ساتھ دے، تو ہم ایکسپورٹ بھی کرسکتے ہیں۔
متذکرہ بالا کارخانوں کے علاوہ 322 متفرق کارخانے بھی موجود ہیں…… جن میں سے مظفر آباد میں 20، پونچھ میں 10، کوٹلی میں 41، میرپور میں 171 اور بھمبر میں 80 کارخانے ہیں اور نیلم میں اُلو بنانے کے علاوہ کوئی کارخانہ نہیں ہے۔
کچھ لوگ پارٹی پرستی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں اور مہنگائی کے اس عالم میں بھی ہنسا ہنسا کر پیٹ میں بل ڈال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کنٹرول لائن کی وجہ سے کارخانے نہیں لگائے جاسکتے۔ (سبحان اللہ! ماں صدقے تسدے بوتھے تو!)
جناب! آزاد کشمیر کے جن اضلاع میں کارخانے لگے ہوئے ہیں کیا وہاں بارڈر نہیں؟ کیا پاکستان میں جن علاقوں کے ساتھ بارڈر لگتا ہے، وہاں کارخانے نہیں؟ نیلم میں سرکاری گیسٹ ہاؤسز بن سکتے ہیں، سرکاری دفاتر بن سکتے ہیں، ایم ایل ایز کی قیام گاہیں بن سکتی ہیں، تو کارخانے کیوں نہیں؟ مگر کیوں بنائیں…… کارخانوں میں کون سے امیروں کے، ایم ایل ایز کے بچوں نے کام کرنا ہے! ان کے لیے تو گیسٹ ہاؤس عوام کے ٹیکسوں سے بنے ہوئے ہیں۔ وہ پکنک کے لیے چکر لگا لیتے ہیں۔ ابا جی کی الیکشن مہم بھی چلا لیتے ہیں اور محکمۂ تعلیم کا ترتیب دیا ہوا مخلوط رقص بھی دیکھ لیتے ہیں۔
اب جاتے جاتے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے میرا سوال ہے کہ ہم نے نیلم کے لیے کیا کیا؟ اتنی دہائیوں میں کوئی ایک کارخانہ بھی نہیں لگایا۔آپ کے بچوں کو کام اور نوکری کی ضرورت نہیں…… نیلم کے بچوں کو تو ہے۔کیا ہم اس لیے ووٹ دیتے ہیں کے ہمیں جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا جائے؟ کیا ہم ایک مخصوص ٹولے کو نوازنے کے لیے ووٹ دیتے ہیں؟ بتائیں! اب نیلم والے کدھر جائیں، بھوکے مر جائیں؟ آپ تو ان کی کھال کو بھی ووٹوں کے لیے استعمال کریں گے۔ کیوں کے نیلم میں مردے بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔ ووٹ کے وقت تو یہ کہتے ہیں، ’’جی بلاؤ! اپنے رشتہ داروں کو پنجاب سے، آنے جانے کا کرایہ ہم دیں گے!‘‘ کیا کبھی یہ بھی کہا ہے کہ ’’بلاؤ ان کو ان کے گھر کا ایک ماہ کا راشن ہم دیں گے۔‘‘ کرونا سے کتنے لوگ بے روزگار ہیں، ان کی کوئی خبر ہے؟ ہمارے ایم ایل ایزووٹ کے لیے ہرگھر کا ایڈریس ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقین مانیے، وہ گھر بھی ڈھونڈ لیتے ہیں جن کا ہمیں بھی پتا نہیں ہوتا۔ وادی کے حکمران ہمارے ووٹوں اور ٹیکسوں سے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں اور ہم نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ نیلم کو بھی دوسرے اضلاع کے برابر حقوق دیں۔
ورنہ پھر ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں!
………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔