آج کل پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج جیسا تاریخی اور معیاری تعلیمی ادارہ مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار ہے۔ وہ تعلیمی ادارہ جس کی مثبت سرگرمیوں، معیاری ترقی اور منظم ماحول پر ہر سواتی کا سر فخر سے بلند ہوتا تھا، آج محکمۂ تعلیم کے افسرانِ بالا کی غفلت اور مقامی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہم سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔
آخر ایسے کون سے بڑے مشکل مسائل ہیں جو محکمۂ تعلیم اور مقامی انتظامیہ کی مدد اور تعاون سے حل نہیں ہوسکتے۔ میری درخواست اور اپیل ہے کہ متعلقہ ذمہ داران فی الفور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر کالج کے پرنسپل صاحب اور سینئر پروفیسر صاحبان سے مل کر بات چیت کے ذریعے درپیش مسائل کو جلد از جلد دانش ورانہ طریقے اور پُرامن طور پر حل کریں۔ یہ اُن کی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی کہ کالج انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی بے چینی اور اضطراب کو افراتفری سے پہلے پہلے ختم کردیں۔ مسائل اور مشکلات کی نشان دہی کرنا تو بلاشبہ کالج کی انتظامیہ کا کام ہے…… لیکن لگے ہاتھوں ہم اپنے کالم کے ذریعے چند مسائل پیش کرنا چاہتے ہیں:
٭ ہم اس کالم سے پہلے روزنامہ آزادی کی 23 اکتوبر کی اشاعت میں ’’گلینہ نعیم کی آواز سنیں‘‘ کے زیرِ عنوان ایک کالم لکھ چکے ہیں۔ کالج کی اس طالبہ نے اپنے ایک پروفیسر کے ٹرانسفر پر ایک معصومانہ احتجاج کی صورت میں 10 اکتوبر کو کالم لکھا تھا اور اس میں درخواست کی تھی کہ اُس پروفیسر صاحب کا واپس جہانزیب کالج میں تعین کیا جائے۔ کیوں کہ اُس کے بے وقت اور اچانک ٹرانسفر سے طلبہ و طالبات کی پڑھائی میں خلل پڑ رہا ہے…… اور طلبہ اپنی پڑھائی میں وہ تسلسل اور توجہ نہیں دے پا رہے جو پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ درجنوں سینئر ماہر پروفیسروں کو جہانزیب کالج سے مدین اور باغ ڈھیریٔ کے نئے کالجوں میں ٹرانسفر کیا گیا ہے، جہاں کالجوں میں پڑھائی ابتدائی مراحل میں ہے…… اور طلبہ کی تعداد بھی کم ہے۔ پھر یہ تو مسئلے کا حل نہ ہوا کہ آپ ایک طرف تو فائدہ پہنچائیں اور دوسری طرف اس سے دو گنا نقصان دیں۔ اگر موجودہ حکومت کا دعوا بے روزگاری کا خاتمہ ہے، تو سیکڑوں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی جوان بے روزگار دھکے کھا رہے ہیں۔ اُنہیں بھرتی کیوں نہیں کیا جاتا؟ بجائے اس کے کہ ایک اچھے بھلے معیاری کالج کے تعلیمی تسلسل کو ڈسٹرب کر رہے ہیں۔ پرانے سینئر پروفیسر صاحبان کی طلبہ کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ اور تعلیمی تسلسل کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔ یہ سوتیلی ماں جیسا سلوک جہانزیب کالج کے ساتھ کیوں……! اس کو کسی بھی طرح اور کسی بھی قانون اور ضابطے کے تحت صحیح اور انصاف پر مبنی اقدام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہم طلبہ و طالبات کے اس مطالبے کی پُرزور حمایت کرتے ہیں کہ اُن کے پرانے پروفیسر صاحبان کا واپس جہانزیب کالج میں تعین کیا جائے، تاکہ وہ پُرسکون اور دلجمعی کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔
٭ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ودودیہ ہال کو ویکسی نیشن کے لیے استعمال کرنے کی کیا تُک ہے؟ ودودیہ ہال جہانزیب کالج کی ملکیت ہے۔ اس پر جہانزیب کالج کے طلبہ و طالبات کا حق ہے۔ اس میں طلبہ و طالبات کے لیے فنکشن ہوں گے۔ علمی سیمینار، مشاعرے اور مباحثے ہوں گے۔ عرصۂ دراز سے اُسے ویکسی نیشن کے لیے استعمال کرنے کی وجہ سے طلبہ کی سماجی و علمی سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں۔ یہ اُن کی ذہنی اور علمی سرگرمیوں پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف عمل ہے۔ اس کے علاوہ ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ ودودیہ ہال کے تعلیمی تقدس…… اور صفائی کا بطورِ خاص جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ وہاں صفائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ سیگریٹ کے ٹکڑوں اور نسوار کی تھوکی گئیں خوراکوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کیا تعلیمی اداروں کے ساتھ ہمارا یہ سلوک مناسب ہے؟ کیا اداروں کے ساتھ ایسا بے رحم سلوک کسی بھی طرح مہذب قوموں کا شیوہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہم ضلعی انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فی الفور ودودیہ ہال کو جہانزیب کالج کی انتظامیہ کے حوالے کریں۔ ویکسی نیشن کے لیے ڈھیر سارے مقامات ہیں۔ کسی اور مناسب جگہ کو اس مقصد کے لیے مقرر کریں۔ مجھے امید ہے کہ محترم ڈپٹی کمشنر صاحب اس بارے میں مخصوص توجہ فرمائیں گے اور جہانزیب کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ صاحبان کو مزید شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔
٭ جہانزیب کالج کی تعمیر بہت سست روی سے جاری ہے۔ حکومتی ذرائع اس کا ذمہ دار ٹھیکیدار کو قرار دے رہے ہیں۔ اگر حکومت روپیا پیسا اور میٹریل مہیا کر رہی ہے، تو پھر آخر ٹھیکیدار کی سستی کا مطلب کیا ہے؟ کہیں اندرونِ خانہ حکومتی وزرا اور متعلقہ افسران، ٹھیکیدار کے ساتھ کرپشن میں ملوث تو نہیں؟ کیوں کہ پاکستان میں تو یہ روایات چلی آ رہی ہے اور اسے (کرپشن) کو روزمرہ معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ کالج کا تعمیری کام مکمل کرنے اور کالج کو پرنسپل کے حوالے کرنے کے ایک عرصہ سے مختلف تاریخوں کے وعدے ہو رہے ہیں۔ 2021ء میں کالج کو مکمل کرکے حوالے کرنے کا پکا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب 2021ء ختم ہونے کو ہے لیکن افسوس دور دور تک ایسی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی ہے کہ کالج کو اس سال مکمل کرکے حوالے کیا جائے گا۔ متعلقہ افسرانِ بالا سے درخواست ہے کہ وہ ٹھیکیدار کو تعمیری کام تیز کرنے پر مجبور کرے۔ تاکہ طلبہ و طالبات بجائے اِدھر اُدھر کے اپنے کالج کے پُرسکون ماحول اور کلاسوں میں بیٹھ کر پڑھائی کے ایک زمانے سے دل میں بسنے والے ارمان کو پورا ہوتا دیکھ سکیں۔ اس طرح پروفیسر صاحبان کالج کے وسیع دالانوں اور غلام گردشوں میں گھوم پھر کر ایک عرصے کی خواہشات پورا ہوتا محسوس کرسکیں۔
مجھے یقین ہے کہ ضلعی انتظامیہ کالج کے پرنسپل صاحب اور سینئر پروفیسر صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر ذکر شدہ اور اس کے علاوہ دیگر تمام مسائل کا حل تلاش کریں گے اور خوش اسلوبی سے جہانزیب کالج کی تمام مشکلات کو دور کرنے کی سعی کی جائے گی۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔