(خصوصی رپورٹ) سوات میں شدت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے فوج کے داخلے کے 14 سال اور امن کے قیام کے بعد فوج کی جانب سے اختیارات سول انتظامیہ کو منتقل کرنے کے ٹھیک 3 سال مکمل ہوگئے۔
2005ء میں افغانستان سے واپسی پر ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کے واپس آنے کے بعد انہوں نے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا تھا۔ 2006ء میں سرگرمیاں بڑھنے اور 2007ء میں ہتھیار اٹھانے کے بعد 20 اکتوبر 2007ء کو پاک فوج کے دستے سوات میں داخل ہوئے تھے۔ ان پر پہلا خودکُش حملہ تبلیغی مرکز تختہ بند کے قریب کیا گیا تھا۔
سوات میں شدت پسندوں کے خلاف دو ڈویژن فوج کو تعینات کیا گیا تھا جس نے شدت پسندوں کے خلاف ’’راہِ راست‘‘ اور ’’راہِ حق‘‘ کے نام سے آپریشن کیے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات میں شورش کے دوران میں 2385 عام اور بے گناہ لوگ شہید اور 3694 زخمی ہوئے۔ اس دوران میں 123 پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے۔ اس طرح 8288 گھروں کو نقصان پہنچا۔
یتیموں کے ادارہ ’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘ کی انتظامیہ کے مطابق اس دوران میں 5 ہزار سے زائد یتیم بچوں نے داخلے کے لیے ان کو درخواستیں دیں۔
دوسری طرف آئی ایس پی آر کے مطابق سوات آپریشن کے دوران میں پاک فوج کے 408 آفیسر اور سولجر شہید اور 1334 زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر ہی کے مطابق اس آپریشن میں 1641 دہشت گرد ہلاک اور 377 زخمی ہوئے۔
سوات سے لوگوں کی نقلِ مکانی، پھر واپسی اور گھر گھر تلاشی کے بعد آپریشن مکمل ہونے پر آج کے دن 21 اکتوبر 2018ء کو سیدو شریف ائیرپورٹ کے رن وے پر ایک تقریب میں وزیر اعلا محمود خان اور اس وقت کے کور کمانڈر شریک تھے۔ اس تقریب میں فوج نے تمام انتظامی اختیارات سول انتظامیہ کے حوالے کیے اور مرحلہ وار سوات سے فوج کی واپسی شروع ہوگئی۔