جمہوریت اُس نظام کو کہتے ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اور ووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرول کرسکیں اور ووٹروں کا اختیار اپنے منتخب نمائندوں کے اوپر ہو۔ جمہوری نظام میں عوامی عہدہ رکھنے والے صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِ اعلا، ایم این اے، ایم پی اے اور جملہ افسران کے مفادات کی بجائے آئین طاقت ور ہوتا ہے۔ جمہوریت کے خلاف طاقت کے آخری مرکز سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ساری دنیا میں حکمرانی کا کوئی ایسا قابلِ ذکر ماڈل نہیں، جو جمہوریت کا مقابلہ کرسکے، جو کہ آج کے زمانے میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور کامیاب طرزِ حکومت ہو۔ جب کہ جمہوری ملکوں میں عوام کے حقوق سلب کرنے والے افراد کی کمی نہیں۔ اس طرح لفظ ’’جمہوریت‘‘ ایک دلکش کہاوت کے طور پرعوام کو سبز باغ دکھانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ ایسی جمہوریت میں طاقتور طبقات، سیاست اور حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جن کا فائدہ اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ ملک کے وسائل امیر طبقات کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔
15 ستمبر کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’عالمی یومِ جمہوریہ‘‘ منانے کا مقصد جمہوریت کے فروغ کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔
یہاں اگر پاکستان میں جمہوریت کے سفر اور اس کے ثمرات کی بات کی جائے، تو قیامِ پاکستان سے اب تک 74 سالوں میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکی۔ جمہوریت کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے ہیں۔ غیر جمہوری قوتوں نے متعدد بار جمہوریت پر شب خون مارا۔ یہاں آئین کو پامال کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی۔ جس کی وجہ سے آج بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جمہوری دورِ حکومت میں بھی محض سیاسی جماعتوں اور انتخابات ہی کو جمہوریت سمجھا گیا ہے، حالاں کہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضا ہے، جس جمہوریت میں گڈ گورننس نہ ہو، اُسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق تو ملت کے تمام افرادکو معاشرتی اور معاشی مساوی حقوق حاصل ہیں، مگر جمہوری نظام کے باوجود امرا ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں اور امرا کی حکمرانی میں قانون و انصاف اور دیگر امور میں غریب عوام سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے، اس کی کسی جمہوری ملک میں مثال نہیں ملتی۔
گذشتہ 74سال سے پاکستان میں جمہوریت کے جس ماڈل پر عمل کیا جاتا رہا ہے، اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔ پاکستان میں موجود امیروں کی جمہوریت کے ثمرات امیروں میں ہی گردش کرتے رہتے ہیں اور ایسی جمہوریت میں عوام کا کردار محض 5 سال کے بعد پرچی پر مہر لگانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً عوام بھی الیکشن میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کرتے اور صرف 20 فیصد کہیں 25 فیصد ٹرن آؤٹ پر وہی لوگ مسلط ہوجاتے ہیں جنہیں عوام پسند ہی نہیں کرتے۔ اکثر جمہوری سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اثاثے پاکستان سے باہر موجود ہیں۔ وہ پاکستان میں صرف اقتدار انجوائے کرنے کے لیے آتے ہیں۔ مدتِ اقتدار پوری ہونے یا ملک میں ان کی کرپشن عیاں ہونے پر یہ واپس بیرونِ ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لیے، عوام کی زندگیوں میں شفاف انداز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اس وقت ہی مضبوط و مستحکم ہوسکتی ہے جب ہر ادارے اور سیاسی پارٹیوں کے اندربھی جمہوری عمل پر پختہ یقین ہو، اور شفاف انداز میں انصاف، صحت اور تعلیم کے شعبہ جات میں بہتری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی ہوئی فی کس آمدنی کی صورتِ حال کو بہتر کیا جائے۔ سرکاری اداروں میں ناقص کارکردگی دکھانے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے۔جب تک موجودہ جمہوری سسٹم کو تبدیل نہیں کیاجاتا، پاکستان کے غریب عوام کی ترقی منجمدہی رہے گی۔
جمہوری سسٹم کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ملک سے کرپشن اور اقربا پروری کا مکمل خاتمہ ہو، حکمران اور سیاسی شخصیات ملک سے لوٹا ہوا سرمایہ پاکستان واپس لائیں۔ اگر مفادات کی سیاست سے بالا تر ہو کر پاکستان کے استحکام اور دو قومی نظریہ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے صادق و امین لوگوں کوکلیدی عہدوں پر ذمہ داریاں سونپی جائیں، تو وہ دن دور نہیں جب قیامِ پاکستان کے مقاصد کے عین مطابق حقیقی اسلامی، فلاحی و جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے گا اورپاکستان میں جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوگی۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔