جدید جنگیں طویل ہوتی ہیں اور اس جدید دور میں جب دو فریق جنگ پہ اُتر آتے ہیں، تو اڑوس پڑوس والے بھی اپنا حساب چکتا کرتے ہیں۔ جدید دور میں کوئی واضح جنگ بھی نہیں ہوتی۔ بس ایک کھینچا تانی جاری رہتی ہے، جسے عموماً ’’سرد جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
افغانستان اپنی مخصوص جغرافیہ کی وجہ سے پِس جاتا ہے۔ یہ ایک طرف جنوبی ایشیا کے لیے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے راستہ ہے، تو دوسری جانب سے یہ وسطی ایشیا اور روس تک باقی دنیا کو کھولتا ہے۔ گریٹ گیم کے دوران میں یہ خطہ اور اس سے منسلک داردستان کا علاقہ خوب پسا جاتا رہا ہے۔
’’سپنگلر‘‘ نے ایک کتاب لکھی ہے دو جلدوں میں، جس کا اُردو ترجمہ ’’زوالِ مغرب‘‘ ہے، یعنی قرونِ وسطی میں مغرب کس طرح زوال کا شکار رہا۔ اس نے لکھا ہے کہ شمال کی جانب سے لشکر آئے جو تہذیب اور تمدن سے دور تھے، جن کا ادب اور فنون سے کوئی تعلق نہ تھا اور جن کو جمالیات سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ مطلب وہ ایک لحاظ سے حیوانی زندگی گزارتے تھے اور ان کے سامنے زندگی کا سب سے بڑا مقصد بھوک کی جبلت کو مٹانا تھا۔ اس لیے وہ تلواریں لے کر نکلتے اور دوسرے انسانوں کا سر اُڑا دیتے ہیں۔ اسی پس منظر میں علامہ اقبالؔ نے شعر لکھا تھا:
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طاؤس و رباب آخر
مطلب، اقبالؔ کہتا ہے کہ مَیں تجھ کو قوموں کے سفر کا احوال بتاتا ہوں۔ وہ شروع میں جنگجو اور وحشی ہوتے ہیں اور ان کے ہاں علم و فن کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ وہ ایک فطری ثقافت میں رہتے ہیں لیکن پھر آگے سفر کرکے مہذب ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاں علم و فن پنپتا ہے۔
ہمارے کئی لوگ اس شعر کا مطلب کچھ اور لیتے ہیں۔
مقصد یہ تھا کہ افغانستان اب تک ایک قومی ریاست نہ بن سکا۔ یہاں سیاست جڑ نہ پکڑ سکی۔ یہاں ہر دور میں مقامی سردار ہی نمایاں رہے۔ اس لیے یہاں ہر منصوبہ ناکام ہوا۔ روس نے حملہ کرکے یا اس کی ایما پر یہاں سوشلزم لایا گیا، مگر وہ ناکام رہا۔ اس کے بعد یہاں مجاہدین کو اکھٹا کرکے کوئی قومی طرز کی حکومتیں بنائی گئیں مگر وہ بھی ناکام رہیں۔ پھر طالبان انہی مجاہدین میں سے اور انہی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور پورے افغانستان پر حکومت بنالی، لیکن ناکام رہے۔ پھر دو مرتبہ جدید طرز پر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی سربراہی میں جیسے تیسے کچھ سیاسی حکومتیں بنالی گئیں لیکن اس عرصہ میں بھی کوئی سیاست پنپ نہ سکی اور وہی یاغستانی روایت برقرار رہی۔
اب ایک بار پھر طالبان نے افغانستان کو زیر کرکے اپنی حکومت کا اعلان کیا ہے، لیکن اس بار وہ خود کو اپنے پہلے دور سے مختلف ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ تاریخ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر طالبان نے بھی باقی دنیا کی شرائط نہ مانیں یا پھر ان بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ نہ کیا، تو وہ بھی ناکام ہوجائیں گے۔
جیسا کہا گیا کہ ’’ وہاں سیاست جڑ پکڑ نہ سکی۔‘‘ پاکستان میں تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہاں سیاست کافی حد تک لوگوں میں گھس گئی ہے اور معاشرے کا بڑا حصہ یاغستانی سوچ کی بجائے سیاسی سوچ اپنا چکا ہے۔ اگرچہ یہاں بھی سیاست اور عسکریت کے بیچ طاقت کے حصول کے لیے ایک تناؤ ہمیشہ سے برقرار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمیعت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی وہاں افغانستان میں طالبان کے یوں غیر سیاسی طور پر حکومت پر قبضہ کرنے پر خوش ہیں اور اس کی تعریفیں کر رہی ہیں لیکن یہاں پاکستان میں کبھی ایسی عسکری کوشش نہیں کرسکیں گی۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں ایسی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوگی۔ جب سوات جیسے علاقے میں اسی طرح طالبان کا قبضہ ہوا تھا، تو جمیعت کے سربراہ مولانا فضل رحمان خود پارلیمان کو خبردار کر رہے تھے کہ طالبان صوابی تک پہنچ گئے ہیں اور جلد اسلام آباد میں ہوں گے۔ اس کے بعد سوات میں طالبان کے خلاف ایکشن ہوتا ہے۔
افغانستان میں جتنی بھی حکومتیں تاریخ میں آئی ہیں، وہ کسی سردار نے لائی ہیں یا پھر کسی غیر ملکی طاقت کی ایما پر مذکورہ سردار حکومت پر قابض ہوگیا ہے۔ کوئی الیکشن وغیرہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے وہاں ہر قدم پر سردار ہی ہوتے ہیں اور سیاست میں ان کی چلتی ہے۔ شکر کریں کہ پاکستان کو ایک سیاسی جدوجہد کی وجہ سے بنایا گیا ہے اور ایک سیاسی پارٹی نے اس کے لیے کوشش کی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے جو چند سیاسی پارٹیاں موجود تھیں، ان کی میراث اب بھی جاری و ساری ہے اور پاکستان بننے کے بعد بھی سیاسی پارٹیاں بن چکی ہیں۔
سب افغانوں کو دوش نہیں دیا جاسکتا اور نہ سب افغان ہی ایسے ہیں۔ وہاں افغانستان میں اگر کوئی حکومت کوئی راہ لیتی ہے، تو بین الاقوامی کھلاڑی اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس کو اپنی بتائی ہوئی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہیں سے مفادات ٹکراتے ہیں اور افغانستان میدان جنگ بنا رہتا ہے۔
طالبان نے بھی ان طاقتوں کے متضاد مفادات کا خیال رکھنا ہے بلکہ وہ ان سے ایسے وعدے کرکے ہی آئے ہیں، جوں ہی ان وعدوں سے مکر جائیں گے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ افغانستان میں بھلے طالبان کی حکومت ہو یا دوسرے لوگوں کی، یا پھر کوئی مخلوط حکومت ہو، بس بڑی طاقتوں کو افغانستان کو اس کے حال پہ رہنے دینا چاہیے، تاکہ وہاں کوئی سیاسی نظام پروان چڑھ سکے اور استحکام آسکے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔