پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں انجینئروں کی حالت زار پر کئی دفعہ لکھ چکا ہوں۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ انجینئروں کو جگائیں اور ریاست اور حکومت کو باور کرائیں کہ اس وقت انجینئر بدترین حالات سے دوچار ہیں۔ مَیں نے اپنے پہلے لکھے کالموں میں بھی اس بات کا بار ہا اظہار کیا ہے کہ اس وقت انجینئرنگ پروفیشن کو پاکستان میں شرمندگی کا سامنا ہے۔ انجینئر بے روزگاری سے دوچار ہیں اور عام لوگ انجینئروں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
غالباً سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرف سے منعقدہ ایک کورس میں جب ٹرینر نے ان کی تنخواہیں پوچھیں، تو اکثریت نے کہا کہ وہ بے روزگار ہیں اور جنہوں نے ہاتھ کھڑے کیے کہ وہ جاب پر ہیں، تو ایک نے آٹھ ہزار ماہانہ تنخواہ بتائی اور دوسرے نے بارہ ہزار۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ منظر جب بھی ذہن میں آتا ہے، تو خدا کی قسم رونا آتا ہے۔ یہ بات مَیں نے کسی کو نہیں بتائی، تاکہ اس عظیم پروفیشن کی بے عزتی نہ ہو لیکن آج اس بات کا انکشاف کر رہا ہوں۔ صرف اس لیے کہ اربابِ اختیار کا ضمیر جاگ جائے اور ان تھوڑی سی شرم آئے۔
اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ انجینئر بے روزگار ہیں اور جن سرکاری محکموں میں انجینئر کام پر لگے ہیں، ان کو بھی ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔
خیبر پختونخوا میں چار بڑے محکمے ایسے ہیں جہاں انجینئروں کی کھپت زیادہ ہے۔ محکمہ بلدیات، محکمہ پبلک ہیلتھ، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور محکمہ ایری گیشن ان چار محکموں میں کافی انجینئر ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ صوبے میں پرائیوٹ سیکٹر میں اتنی کیپیسٹی نہیں کہ انجینئروں کو کھپایا جائے۔
قارئین، باقی پاکستان کے مقابلے میں ہمارے صوبے میں انجینئروں کی حالت بہت پتلی ہے۔سندھ میں کراچی جیسا صنعتی شہر موجود ہے۔ اندرونِ سندھ فرٹیلائزر کی انڈسٹریاں موجود ہیں۔ حیدر آباد اور کراچی میں ’’سول کنسٹرکشن‘‘ بھی زبردست ہے، وہاں کے انجینئر پھر بھی کسی حد تک خوش قسمت ہیں۔
اس طرح بڑے صوبے پنجاب کا بھی یہی حال ہے کہ وہاں سول کنسٹرکشن، کثیر منزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ کارخانے چل رہے ہیں۔ وہاں کے انجینئر بھی کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ ہو ہی جاتے ہیں۔
البتہ دہشت گردی سے متاثرہ اس صوبے (خیبر پختونخوا) کے انجینئروں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ یہاں پرائیوٹ سیکٹر میں جاب کے مواقع ملتے ہیں اور نہ سرکار کی طرف سے مناسب انتظام ہی ہے۔ یہاں کے انجینئروں کی آخری امید مذکورہ بالا چار محکمے ہیں۔ اگر ان محکموں میں بھی ڈپلوما ہولڈروں کی اجارہ داری ہو جائے، تو پھر انجینئرکہاں جائیں گے؟
اس وقت انجینئروں کا روزگار ڈپلوما ہولڈروں کو دیا گیا ہے اور باقاعدہ پلان بنایا جا رہا ہے کہ ڈپلوما ہولڈر اور بی ٹیک والوں کو انجینئرنگ کی سیٹوں پر بٹھایا جائے۔ بی ٹیک ڈگری، پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرف سے انجینئرنگ کے برابر نہیں۔ڈپلوما ہولڈر تو ٹیکنیشین جاب کے حامل ہوتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جس طرح ایک میڈیکل ٹیکنیشین کبھی ایک ڈاکٹر کے برابر والی پوزیشن پر نہیں لایا جاسکتا، جس طرح سولہ جماعت پاس ایک نرس ڈاکٹر کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی، ٹھیک اسی طرح انجینئر کی پوزیشن کبھی ڈپلوما ہولڈراور بی ٹیک پاس لوگوں کو نہیں دی جاسکتی۔ ایسا ایک صورت میں ممکن ہے کہ مارکیٹ میں انجینئروں کی شدید کمی ہو، تو تجربے کی بنیاد پر ان کو پروموٹ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت ایسے حالات نہیں۔ مارکیٹ میں انجینئروں کی کثرت ہے اور سب سے زیادہ متاثر اور مظلوم طبقہ اس وقت انجینئروں کا ہے۔
قارئین، صرف یہ ہی نہیں کہ مارکیٹ میں بی ایس سی انجینئر کی کثرت ہے، جو جاب کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں بلکہ ان نوجوان انجینئروں میں دس بیس فیصد ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایم ایس کی ڈگریاں بھی لی ہیں۔ بعض بے چارے ’’پی ایچ ڈی‘‘ ہیں اور جاب کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
جب حالات اتنے دگر گوں ہیں، تو کیوں نت نئے احکامات کے ذریعے انجینئروں کا حق مارا جا رہا ہے؟ اگر ڈپلومہ کی بنیاد پر یا سادہ بی ٹیک کے ذریعے بڑے پوزیشن تک رسائی اس قدر آسان ہے، تو پھر اعلان کیا جائے تاکہ نوجوان اپنے اپنے ضلع میں کسی پرائیوٹ یا سرکاری کالجوں سے ڈپلوما باآسانی پڑھ سکیں اور انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول میں خوار و زار نہ ہوں۔ نہ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کرکے اپنا اور والدین کا سرمایہ اور وقت ضائع کریں۔
اس وقت صوبے کے چار کلیدی محکموں میں ایس ڈی اُو کی سیکڑوں اسامیاں خالی ہیں، جن پر ٹیکنیشین کو بٹھایا گیا ہے۔ حکومتِ وقت سے درخواست ہے کہ وہ ان اسامیوں کو مشتہر کروائے۔ ڈپلوما ہولڈر اور بی ٹیک والے بھی اس قوم کے بچے ہیں، ان کو بھی ان کا حق دلایا جائے۔تجربے کی بنیاد پر ان کی تنخواہ،مراعات اور سکیل میں اضافہ کیا جائے، لیکن انجینئر کی پوسٹ پر ان کو نہ بٹھایا جائے۔
اس طرح جو اسامیاں ڈپلوما ہولڈروں کے لیے مختص ہیں، ان میں بی ایس سی انجینئرکو روکا جائے، جس کا کام اسی کو ساجھے والا فارمولا ایپلائی کیا جائے، رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب۔
حکمت، وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ انجینئروں کو پاکستان میں جائز مقام دلایا جائے اور ان کی مزید بے قدری و بے توقیری سے اجتناب کیا جائے۔
انجینئرنگ کمیونٹی سے بھی گذارش ہے کہ وہ اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرے۔ تھوڑی سی سرگرمی دکھائیں۔ ماں بھی بن روئے دودھ نہیں پلاتی، یہ تو پھر بھی ’’مملکتِ خداداد‘‘ ہے، جہاں جائز کام بھی بغیر روئے نہیں ہوتے۔ یہاں حقوق احتجاج اور مسلسل کوششوں سے ملتے ہیں۔
پاکستان میں بال کٹوانے والوں کے بھی ایسوسی ایشن ہیں، انڈے بیچنے والوں کے یونین اور ایسوسی ایشن ہیں، گدھا گاڑی چلانے والوں کے ایسوسی ایشن موجود ہیں حتی کہ یہاں خواجہ سراؤں کے بھی ایسوسی ایشن موجود ہیں جو اپنے اپنے سرگرم پلیٹ فارم سے معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے سرگرمیاں کر رہے ہیں۔
لیکن افسوس کہ معمارانِ قوم کہلانے والے انجینئروں کے لیے اس ملک میں موثر پلیٹ فارم نہیں جس سے وہ اپنے دکھ اور غم ارباب اختیار کو بتا سکیں۔
قارئین کرام! ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید ظلم برداشت کرنے سے انکار کیا جائے اور اپنے حقوق کے لیے کمربستہ ہوا جائے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔