پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے کراچی میں ہونے والا 13 اگست کا جلسہ کورونا وبا کی وجہ سے موخر کردیا ہے۔ اگر کورونا وبا کا بڑھتا دباو نہ بھی ہوتا، تو پی ڈی ایم میں اب حکومت کو پریشان کرنے کی کوئی سکت باقی نہیں رہی۔ پی ڈی ایم عملی طور پر ختم اور ان کے بیاینے کو دھچکا لگ چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اختلافات نے حکومتی اقتدار کو مضبوط کیا اور بادیِ النظر میں آئینی مدت پوری کرنے کا سنہرا موقع فراہم کیا۔ پی پی پی اور پی ایم ایل ن کے درمیان عدم اعتماد کی فضا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اس حوالے سے کسی ایک سیاسی جماعت کو مورد ِ الزام ٹھہرانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جب پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، تو حالات و واقعات یہی بتا رہے تھے کہ بہت جلد بڑی جماعتوں میں چپقلش بڑھے گی۔ ٹھوس لائحہ عمل کو مرتب کرنے میں سوچ بچار سے کام نہیں لیاگیا اور روایتی طور پر گمان کرلیا گیا کہ صرف سیاسی ورکرز کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت سے حکومت کے دن گننا شروع ہوجائیں گے۔
دھرنوں، جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے پُرامن طریقے سے کسی بھی حکومت کو گرانا ناممکن ہوتا ہے، تاہم دباؤ ضرور پڑتا ہے لیکن اس نفسیاتی جنگ میں وہی جیتتا ہے جس کی ’’پشت‘‘ مضبوط ہوتی ہے ۔ پی ٹی آئی نے ن لیگ کی حکومت کو اکھاڑنے کے لیے طویل ترین دھرنا دیا تھا۔ سول نافرمانی کی تحریک سمیت ہر آپشن کا استعمال کیا گیا تھا، لیکن نواز حکومت کو ٹس سے مس نہیں کرسکی تھی۔ پی ٹی آئی کے لیے پریشان کن عمل تب ہوتا جب عوام بھی احتجاج میں شریک ہوتی اور ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتِ حال میں کسی ممکنہ تبدیلی کے لیے اپنا حصہ ڈالتے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی کارکردگی اتنی آئیڈیل کبھی نہیں رہی کہ ان کی کمر مہنگائی، بے روزگاری اور کرونا وبا نے توڑ رکھی ہے۔ انہیں عوام کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی سے ان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ورنہ یہی عوام تھے کہ جب چینی کی قیمت میں چار آنے کا اضافا ہوا تو سراپا احتجاج بنے اور حاکمِ وقت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
پی ڈی ایم مربوط حکمت عملی کے بغیر میدان میں اتری۔ اجتماعی استعفوں کی سیاست میں ٹائمنگ کا خیال نہیں رکھا گیا اور اتحادی جماعتوں بالخصوص پی پی پی کے ساتھ اعتماد کی فضا میں بے اعتباری کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ سیاست فروعی مفادات کے تحت چلتی رہی اور بڑی جماعتیں ریلیف کے لیے اپنے بیاینے میں تبدیلی کرتی رہی۔
پی ایم ایل این کی قیادت نے جارحانہ پالیسی اپنائی اور اپنے سخت بیانیہ سے پی ڈی ایم کی جماعتوں میں ہراس پیدا کردیا۔ پسند و ناپسند کی سیاست میں اپنے اتحادیوں کو کم تر سمجھا جانے لگا۔
پی پی پی کی سیاست، مفاہمت کی سیاست رہی ہے۔ وہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی کامیاب پالیسی پر اپنی سیاست کو چلاتی ہے، لیکن ن لیگ نے جارحانہ پالیسی اختیار کی اور ریاست مخالفت میں اپنی حدود سے قدرے تجاوز کیا۔
مولانا فضل الرحمان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے، لیکن جب سینیٹ الیکشن میں ان کے امیدوار کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، تو وہ بھی سمجھ گئے کہ وہ پی ڈی ایم کا جنازہ ڈھونے کے لیے ان کے کندھے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
پی پی پی اپنی مفاہمت کی سیاست میں اتنی آگے چلے گئی کہ اس کی واپسی نواز شریف کی واپسی سے مشروط ہوگئی، جس نے پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ گلگت بلتستان الیکشن میں پی پی پی اور ن لیگ جس طرح آمنے سامنے ہوئے، اس نے پی ٹی آئی کو میدان مارنے کا موقع فراہم کردیا۔ آزاد کشمیر میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال بنی اور پی ٹی آئی کو اپنے کارڈ کھیلنے سے روکنے والا کوئی سامنے نہیں تھا۔ اس وقت پنجاب کی ایک ضمنی نشست پر پی ایم ایل ن کی سیاست پر سوالیہ نشان اُٹھ رہے ہیں اور اندرونی اختلافات کی کہانیوں کے ذریعے مرکزی قائدین کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کے لیے ’’مخصوص طریقے‘‘ سے کام کیا جا رہا ہے۔ یہی ن لیگ تھی جس نے پی ٹی آئی کو اس کے گھر میں بار بار شکست دی اور پے در پے ضمنی انتخابات میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اب صرف ایک ضمنی ہار سے، جس کے ووٹ عام انتخابات سے بھی زیادہ پڑے ہوں، فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ پی ایم ایل ن کا وجود ختم ہوچکا۔
ن لیگ تمام تر اندرونی چیلنجوں کے ساتھ اب بھی ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پی پی پی کا یہ کہنا کہ اگر ن لیگ چاہے، تو پنجاب حکومت کو گرایا جاسکتا ہے، اس اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ ن لیگ میں سیاسی اختلاف رائے ایک معمول کا حصہ ہے۔ اگر ن لیگ کے ہاتھ پیر کھول دیے جائیں، تو پنجاب اور بلوچستا ن کی حکومت سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کا چلنا مشکل ہوسکتا ہے۔ سیاسی پنڈت تسلیم کرتے ہیں کہ ن لیگ کو جکڑا ہوا ہے اور سیاسی طور پر ملک میں ایک جماعتی نظام لانے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کے لیے پی ٹی آئی قطعی اہلیت نہیں رکھتی۔ انتخابی ٹکٹوں پر جس طرح تحریک انصاف کے قائدین تیزی سے فیصلے بدل لیتے ہیں اور اب تک جتنے فیصلوں میں یو ٹرن لیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ ملنا، ان کے اکیلے بس کا کام نہیں۔ ان سے تو شوگر مافیا اور کرپشن سمیت اقربا پروری کے معاملات ہی کنٹرول نہیں کیے جاسکے، جس کا انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔ بھلا وہ کس طرح مانگے تانگے سے بنی حکومت سے کسی بڑی تبدیلی لانے کی قابلیت رکھ سکتی ہے؟ جس طرح پی ٹی آئی نے وزرا کے قلم دان اور بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے، اتنے جلدی تو نئی شیروانیاں بھی نہیں سلائی جاتیں۔ پی ڈی ایم کو اب نئے انتخابات کی خاطر اپنی جماعتوں میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام شروع کردینا چاہیے۔ نظریاتی کارکنوں اور عہدے داروں کو اہمیت دے کر علاقائی سطح پر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور عوام میں گھل ملنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ حکومت گرانا اب ان کے بس کی بات نہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔