میڈیا لاز کے لیکچر کے دوران میں شرمین عبید چنائے کی ڈاکومنٹری پر بحث چھڑ گئی۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ اس ڈاکومنٹری نے بھلے ہی اچھا کردار ادا کیا ہو، مگر اس کے نتیجے میں بننے والے قوانین کے نتائج طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی صورت میں سامنے آئے۔ جب اس بنیاد پر طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے ثبوت مانگے گئے، تو بات آئیں بائیں شائیں پر منتج ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا، بات نہ بنی تو شرمین عبید چنائے کی کمال کوشش کو اور میڈیا کو قصوروار ٹھہرایا گیا، جو میرے عزیز کے مطابق: ’’میڈیا وہ کچھ تو رپورٹ نہیں کرتا جو ہم چاہتے ہیں، ہاں ہر وہ چیز ضرور رپورٹ ہوتی ہے جس کا تعلق جھوٹ، فریب اور ذاتی مفاد سے ہو۔‘‘ آگے کہتے ہیں: ’’اور تو اور میڈیا ملک کی نیک نامی کا بھی تو خیال نہیں رکھتا، من مانی چیزیں رپورٹ کردیتا ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس سے ملک کی عزت خاک میں بھی مل سکتی ہے۔ پس ثابت یہ ہوا کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا، تیزاب پھینکنا، اُسے تشدد کا نشانہ بنانا تو ایسے معاملات ہیں جن پر مرد اور عورت میں معاملات طے پاجانے چاہئیں۔ بھلا قوانین بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اصل بُرائی تو ایسے واقعات کو فضول میں اچھال کر خواہ مخواہ کا تماشا بنانا ہے۔‘‘

شرمین کی ڈاکومنٹری نے بھلے ہی اچھا کردار ادا کیا ہو، مگر اس کے نتیجے میں بننے والے قوانین کے نتائج طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی صورت میں سامنے آئے۔

چلیں، یہ تو بہت عمدہ بات ہوئی۔ ہم میں سے کسی کو یہ حق نہیں کہ ملک کی عزت کسی بھی طور خاک میں ملائے، مگر کوئی راستہ تو بتائیے جس سے ایسی لعنتی سوچ کا کوئی بندوبست کیا جا سکے؟ ہلکے پھلکے تشدد والے بیان آتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف خواتین کی حق تلفی سے متعلق ہر مولوی فتویٰ دینے کو تیار کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو بااختیار بنانا اس پدرسری معاشرے کو کیوں قبول نہیں ہے؟ میرے دوست اگر عورت کے بنیادی حقوق کو لے کر اپنی ضعیف الاعتقادی کی بنا پر اتنے جذباتی ہورہے ہیں، تو غلط وہ بھی نہیں ہے۔ اپنے نظریات کو قائم رکھنا، اس کے مطابق چیزوں کو دیکھنا اور اپنی غلط یا صحیح رائے قائم کرنے کا ہم سب کو حق ہے۔
ایک خاتون استاد کا کہنا تھا کہ صحیح اور غلط کا تصور تو دنیا بننے کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ حضرت آدم سے ایک غلطی ہوئی تھی اور اس کے نتائج سے اللہ نے شائد یہ ثابت کر دیا کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ اسلام سے پہلے کی تاریخ بھی اچھے اور بُرے کی بنیادی تعریف تو کرتی ہی ہوگی، تو اپنے نظریات ضرور قائم رکھئے، مگر ان میں اتنے جذباتی نہ ہوجائیں کہ اچھے اور بُرے میں تمیز بھی نہ کر پائیں۔ ایسے قوانین کو اور تقویت ملنی چاہئے جن سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں کمی واقع ہوسکے۔ ابھی اس معاشرے میں عورت کے اتنے پر کہاں کھلے ہیں کہ خاوند کے ذرا سے ہاتھ لگانے پر گھر میں پولیس بلوا لے، اور نہ ہی قوانین اتنے کھیڈو ملو ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر پورے سُسرال کو عدالتوں میں گھسیٹا جا سکے۔یہ غلط فہمیاں تب ہی دور ہونگی جب آپ خود اس چیز کا بغور مطالعہ کریں گے اور واقعات کے تناظر میں نئے بنائے جانے والے قوانین کا تعصب کی عینک اُتار کر صحیح طریقے سے مشاہدہ کیا جائے گا۔
چونکہ میڈیا لاز اینڈ ایتھکس کی کلاس تھی۔ اس لئے ان تمام چیزوں کی رپورٹنگ کا ذکر ہوا جس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہوتا ہے۔ان لمحات میں مجھے بہت ہی پیارے سلیم شہزاد کی بہت یاد آئی جس نے مفادِ عامہ کے معاملات میں یہ تک نہ دیکھا کہ اس قدر سچ کی قیمت اس کو اپنی جان دے کر چکانا پڑے گی۔ ایسے ہی معاملات جن کو ریاست کی طرف سے تابو بنا کے رکھا گیا ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے ایسے معاملات میں ایک بھی لفظ چھاپنے کے مجاز نہیں ہیں۔حیران ہوتا ہوں کہ ہم آزادیٔ صحافت کو لے کر کس آزادی کے جھنڈے لہراتے پھرتے ہیں جب کہ تاریخ کی پابندیوں بھری آزادی سے بُرا حال آج کے دور میں ہے۔

سلیم شہزاد نے مفادِ عامہ کے معاملات میں یہ تک نہ دیکھا کہ اس قدر سچ کی قیمت اس کو اپنی جان دے کر چکانا پڑے گی۔

تاریخ کی بدبودار کھڑکی سے باہر جھانکئے، تو وہ وقت بھی تھا جب ملک میں آفیشل جہاد کی برینڈنگ خود صحافتی اداروں سے کرائی جاتی رہی۔ وہ وقت بھی دیکھا گیا کہ جب ایک طرف وہ تھے اور ایک طرف ہم۔ کبھی وہ ایڈیٹرز کو اُٹھا کر لے جاتے اور انہیں چھریاں اور گولیاں دکھا کر خوفزدہ کرتے تھے۔ دوسری جانب ہمیں طالبان کے خلاف اداریے چھاپنے کا آفیشل حکم نامہ ہر شام ڈھلنے تک مل جایا کرتا تھا، مگر کیا ہے؟ بہت ہی زیادہ مشکل لمحات میں سے صحافت جو بچ کر نکلی، تو آج بھی تو تلوار کی نوک پر کھڑی ہے۔ہمیں اتنا بھی تو حق نہیں کہ عوام کی جانب سے جمع کرائی گئی ان درخواستوں پر مکمل آزادی کے ساتھ رپورٹ کرسکیں جن کا تعلق عوام کی تنگی اور مشکلات سے ہے اور ان مشکلات کا سبب اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی ادارے ہیں۔ اور تو اور اس سب کے دوران میں کسی بات پر زیادہ غصہ آجائے، تو رپورٹر تو گیا کام سے۔ پریشر کی حد کا تصور کیجئے کہ رپورٹر کا تعلق جس ادارے سے ہوتا ہے، اس کے مالکان بھی اس کارکن صحافی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال خود حامد میر صاحب ہیں کہ ان کو نواز شریف کے پریشر پر جنگ اور جیو نے فارغ کیا تھا۔ اب ہر کوئی سرل المیڈا جتنا خوش قسمت نہیں ہوتا جس کی وجہ سے دو حاضر منسٹرز کو گھر بھجوا دیا گیا، مگر اس کے ادارے نے پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا اور وہ آج بھی اسی اخبار کا حصہہے۔
میرے خیال میں ہمیں صحافت کی اصل اقدار کا بھی ادراک تب ہی ہوگا جب ہم پابندیوں بھری آزادی سے نکل کر مکمل آزادی کی جانب قدم بڑھائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والے تبصروں سے متفق ہونا لازمی نہیں۔