قارئین! یہ ایک ہنگامہ نہیں تھا۔ ہنگامہ تو اچانک یا حادثاتی طور پر ہوتا ہے۔ یہ تو باقاعدہ ایک منصوبے اور سازش کے تحت کھلم کھلا غنڈہ گردی اور بدمعاشی تھی جس کے لیے اوپر کی قیادت سے سوچ سمجھ کر ہدایات ملی ہوئی تھیں کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نہیں بولنے دینا۔
مقصد یہ تھا کہ غندہ گردی، بدمعاشی اور گالم گلوچ سے اپوزیشن کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایوان سے واک آوٹ کرکے گھروں کو چلے جائیں اور ہم جس طرح چاہیں بجٹ منظور کرائیں، لیکن شاباش ہے اپوزیشن پر کہ انہوں نے مارپیٹ اور گالم گلوچ سب کچھ برداشت کیا، لیکن واک آوٹ نہ کرکے حکومتی سازشی منصوبہ بندی کو ناکام بنا دیا۔
حکومتی وزرا اور اراکینِ اسمبلی نے جس طرح شوکت ترین صاحب کے شب و روز محنت سے تیار کردہ بجٹ کی کتابوں کو ایک دوسرے پر مار کر حشر نشر کردیا، اسمبلی تاریخ میں اسے سیاہ ترین دن لکھا جائے گا۔ کیوں کہ حکومتی اراکین کا خود اپنے بجٹ کا یہ حشر کرنا، بدتمیزی، انا پرستی اور فرعونیت کی انتہا ہے۔ آج قوم کے سامنے یہ واضح اور کھلم کھلا طور پر یہ پتا چلا کہ سیاست میں آنے والا یہ ’’لاٹ‘‘ اپنی آنا اور ضد کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ کسی وقت بھی اخلاقیات، انسانیت، اصول کو اپنے پاؤں تلے روند سکتا ہے۔ انہیں شرم و حیا کی کوئی پروا نہیں۔
قارئین! کتنی شرم اور ڈھٹائی کی بات ہے کہ یہ لوگ پہلے سے تیار ہوکر آئے تھے۔ اپنے ساتھ عجیب و غریب بینر، سیٹیاں لے کر آئے تھے، یعنی انہوں نے ہنگامہ کرنا ہی تھا۔
تبدیلی سرکار کی حکومت میں واقعی تبدیلی آگئی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن کے بجائے حکومتی ارکان احتجاج اور غندہ گردی پر تل گئے ہیں۔ اپوزیشن کے ایک ایک کے بدلے دس دس سنانے پر تیار بیٹھے ہیں۔ حالاں کہ اسمبلی کا تاریخی طریقۂ کار یہ چلا آرہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے مقابلے میں صبر و استحکام سے کام لیتی ہے۔ کسی بھی طرح منت زاری، ہنسی مذاق سے اپنا بجٹ اور اپنا قانون پاس کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
حکومت کوشش کرتی ہے کہ اسمبلی کا ماحول خراب نہ ہو، کشیدہ نہ ہو۔ آپ یاد کریں یہی عمران خان اپوزیشن میں تھے۔ اس نے بہ طورِ اپوزیشن پارٹی کیا کچھ نہیں کیا! مہینوں دھرنے دیے۔ گالم گلوچ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ یہاں تک کہ حکومتی ٹیکس نہ دینے اور یوٹیلیٹی بل داخل نہ کرنے کی عوام سے اپیل کی۔ کھلے عام بل پھاڑ دیے۔ اسمبلیوں سے استعفا دینے کی دھمکیاں دیں، لیکن جواب میں نواز شریف حکومت نے خاموشی اختیار کی۔ ان سے بات چیت کی پیشکش کی۔ دھرنا ختم کرنے کی اپیلیں کیں۔ یہاں تک کہ سپیکر ایاز صادق نے لیت و لعل سے کام لے کر استعفے منظور نہیں کیے۔
قارئین، یہی لوگ تھے جو اسمبلیوں کو گالیاں دیتے تھے، لعنت بھیجتے تھے اور پھر ان ہی اسمبلیوں سے تمام تر مراعات مع دھرنوں کے دنوں کی تنخواہیں بھی قبول کیں۔
بہرحال میرا مقصد یہ یاد دلانا تھا کہ عمرانی اپوزیشن کی ہٹ دھرمیوں کے جواب میں حکومت صبر و برداشت کا طرح مظاہرہ کر رہی تھی۔ اب یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکومت ہر وقت اپوزیشن کو تنگ کررہی ہے۔ جیلوں میں ٹھونس رہی ہے۔ کیس ہو یا نہ ہو، نیب کے ذریعے اُنہیں بدنام کررہی ہے۔ نیب کا سربراہ کھلم کھلا جانب دار، اسمبلی کا سپیکر جانب دار، اوپر سے وزیراعظم کی دھمکیاں، گالیاں، توہین آمیز سلوک جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
حکومتی اراکین اور وزرا کی اہمیت اور شاباشی اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ گالیاں دینے اور توہین کرنے پر ہوتی ہے۔ ’’یہ ہے میرا چیتا‘‘، ’’کیا بات ہے میرے شیر، کیا جھاڑ پلائی ہے‘‘، ’’شاباش سر نہ اٹھوانے دینا‘‘، ’’بات نہ کروانے دینا۔‘‘
حکومت کے اس ناروا اور نازیبا رویے کا بڑا سبب یہ ہے کہ اصل حکومت کے پاس ملک چلانے اور معیشت سنبھالنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس لیے وہ ہر وقت ہنگامہ آرائی کرکے ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتی ہے، تاکہ اپوزیشن پر اُلٹا الزامات لگا کر اپنی کمزوری کو چھپایا جائے۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے بے شمار وزیرِ خزانہ آزمائے گئے۔ پچھلی حکومتوں کے ’’لعنتی‘‘، ’’ملامتی‘‘ اور ’’کرپٹ‘‘ وزرائے خزانہ کو بھی آزمایا گیا لیکن نتیجہ وہی ڈاک کے تین بات۔ اور تمام دعوے، وعدے جو بڑی آن، بان اور شان سے کیے گئے تھے، سب الٹی سمت جارہے ہیں۔
مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو واقعی ’’سونامی‘‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بدانتظامی اور بے احتیاطی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ کوئی حکومتی رٹ نہیں۔ ہر جگہ افراتفری ہے۔ دھرنوں پہ دھرنے ہیں، احتجاج ہیں جو ملک کے کونے کونے میں جاری ہیں۔ اوپر سے اسمبلیوں میں ہر وقت دھینگا مشتی نے حالات کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔
دوسری طرف افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد خطے کی صورتِ حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کا سامنا کرنا کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں۔ سب کو مل کر صورتِ حال کو سنبھالنا پڑے گا۔ لیکن شاید موجودہ حکمرانوں کے دماغ میں اس کے لیے کوئی تدبیر نہیں۔ وہ لا اُبالی بچوں کی طرح ہر وقت لڑائی لڑائی کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس ان کی سیاسی انا، ضد، ہٹ دھرمی اور نام نہاد اُصول کا حد صرف اتنا ہے کہ ایک ’’شٹ اَپ کال‘‘ کی دیر تھی کہ ڈھیر ہوگئے۔ مقتدر حلقوں کی ایک ’’وارننگ کال‘‘ نے ان کی سارے کس بل نکال دیے،فوراً سے پیشتر اپوزیشن کے پاؤں پکڑنے میں دیر نہیں لگائی اور آپس میں ایک ’’انڈر سٹینڈنگ‘‘ کے تحت قومی اسمبلی میں خاموشی سے اپوزیشن کے سب کچھ سننے پر آمادہ ہوگئے۔
قارئین، یہ ہے عمران نیازی کی بہادری، ضد اور انا کا مثالی کارنامہ۔
حکومت کی ان بے وقوفانہ حرکتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ اپوزیشن جو تتر بتر ہوگئی تھی، کمزور پڑگئی تھی، اب دوبارہ یک جان و دو قالب ہوگئی۔ بلاول بھٹو نے اپنے تمام اراکین کے ووٹ شہباز شریف کے حوالے کردیے۔ سب کا مؤقف ایک ہوگیا۔ حکومتی بدمعاشی، غندہ گردی، غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے آگے پہاڑ بن کر ڈٹ گئے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو اپنے پاس کردہ تمام 21 عدد غیر قانونی بل واپس اسمبلی میں لانے پڑیں گے۔ بلا ایک دن میں 21 عدد قانونی بل پاس کرانے کا کوئی تُک بنتا ہے، جب کہ کورم بھی پورا نہ ہو۔ اسی کو کہتے ہیں تمام آئینی اصول، قاعدے اور ضابطے بلڈوز کرنا۔
عمران خان صاحب! آپ 5 سال پورے کریں۔ کیوں کہ اب سب کا یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ آپ کو سیاسی شہید نہیں بننے دیا جائے گا۔ آپ کوپورا پورا موقعہ دیا جائے گا، لیکن مکافاتِ عمل سے آپ بچ نہیں سکتے۔ جو کچھ آپ نے بویا ہے، وہی آپ کو کاٹنا پڑے گا، اِن شاء اللہ!
پشتو کے صوفی شاعر عبدالرحمان بابا کے ان شہرہ آفاق اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
ازغی مہ کرہ پہ خپو کی بہ دے خار شی
کر د گلو کڑہ چہ سیمہ دے گلزار شی
کوھے مہ کنہ د بل سڑی پہ لار کی
چرے ستا بہ د کوھی پہ غاڑہ لار شی
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔