افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے منصوبے پر تیزی سے عمل جاری ہے۔ لیکن امریکہ جاتے جاتے ایک ایسا تنازعہ چھوڑ جانا چاہتا ہے جو شام، عراق اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں خانہ جنگی میں الجھتے رہنے کا باعث بنے۔
بادی النظر میں تو یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غیر املکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ائیر پورٹ کی حفاظت کا مقصد غیر ملکی سفارت کاروں اور اہم شخصیات کی آمد و رفت کو محفوظ بنانا ہے۔ اس لیے امریکہ نے ترکی سے کہا کہ وہ کابل ائیر پورٹ کا انتظام سنبھالے۔ ترکی نے مشروط طور پر آمادگی کا اظہار تو کردیا ہے، لیکن افغان طالبان، ترکی کو اپنا واضح مؤقف دے چکے ہیں کہ ترکی کو نیٹو ممالک کے رکن کی حیثیت سے دوحہ معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے واپس جانا ہوگا۔
ترکی کا امریکہ اور نیٹو افواج کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہنا ایک نئے تنازعہ کا باعث بن سکتا ہے۔ افغان طالبان ترکی کے ساتھ مستقبل میں ایک اچھے روابط کے لیے پُرامید ہیں۔ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ مستقبل میں مسلم اکثریتی ملک کے ساتھ ناخوشگوار معاملات درپیش ہوں۔ خیال رہے کہ نیٹو ممالک میں ترکی واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جو افغانستان کے علاوہ عراق، شام، خلیج فارس، بحیرۂ احمر اور افریقہ کی فوجی تنصیبات کے علاوہ قطر، صومالیہ، شمالی قبرص اور سوڈان کے ہوائی اڈوں کی حفاظت کے لیے میزبان ممالک کے ساتھ معاہدے کے تحت بھی موجود ہے۔
افغانستان کی صورتِ حال ترکی کے لیے قطعاً مختلف ہے۔ یہاں چار دہائیوں سے غیر ملکی افواج کی جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمت جاری ہے۔ امریکہ بیس برس کی لاحاصل جنگ میں بدترین شکست کے بعد ماہِ ستمبر تک جلد ازجلد سامان لپیٹ رہا ہے، لیکن ممکنہ خانہ جنگی کو روکنے کے لیے بین الافغان مذاکراتی عمل میں اپنا اثر و رسوخ کابل انتظامیہ پر ڈالنے کے بجائے غیر مکمل عمل کو غیر یقینی صورتِ حال میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ ان حالات میں کہ جب سیاسی پلیٹ فارم سے مسئلے کا حل نہ نکل رہا ہو اور افغان اسٹیک ہولڈر اپنے اپنے مفادات کے تحت خانہ جنگی کی سمت رواں ہوں، تو مخدوش صورتِ حال میں ایک ایسے نیٹو ملک کا شورش زدہ ملک میں رہنا، خطے میں پائیدار امن کے لیے نیک شگون نہیں۔ کیوں کہ افغان طالبان امریکہ اور نیٹو انخلا کے بعد ایک بھرپور حملہ کابل پر ضرور کرنا چاہیں گے، تاکہ طاقت کے ذریعے افغانستان کا وہ کنٹرول دوبارہ حاصل کرسکیں جو امریکی حملے کے وقت ان کے پاس تھا۔
ترک افواج کی موجودگی، مزید اہلکاروں کی آمد اور امریکہ کی لاجسٹک سمیت دیگر امور میں سپورٹ پر افغان طالبان اور ترک افواج کا ٹکراؤ ممکن ہے۔ کیوں کہ افغان طالبان کسی بھی امریکی اعلا عہدے دار کی کابل آمد کے موقع پر راکٹ حملے کرتے چلے آئے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کابل انتظامیہ کی تین لاکھ سے زائد سیکورٹی فورسز،جو اپنے زیر کنٹرول اضلاع کا قبضہ کھوتی جا رہی ہوں، وہ کابل کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوبھی ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ لیکن ترک افواج کی موجودگی کے بعد امریکہ اور نیٹو ممالک کو افغانستان کی سرزمین پر مداخلت کا جواز ملتا رہے گا، جس کا واضح مطلب افغانستان میں مستحکم قیام کو مؤثر بنانا نظرنہیں آتا۔
ترکی سے امتِ مسلمہ کی اکثریت کو خصوصی لگاؤ ہے۔ بالخصوص صدر طیب رجب اردوگان کے ساتھ دلی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امتِ مسلم کے لیے ان کاکردار مثالی رہا ہے اور انہیں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والانڈر حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کی کوئی بھی سپر پاؤر ریاست ہو یا فلسطین سے لے کر کشمیر اور اسلامو فوبیا کے شکار ممالک تک ترکی نے بے خوف ہو کر آواز بلند کی ہے۔ ان حالات میں مسلم دنیا میں ترکی کا ایک خاص مقام ہے۔ اس لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ جب تک افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں متفق معاہدہ تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ طے نہیں پا جاتا، ترکی کو افغانستان میں مزید موجودگی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہے۔ افغانستان کی سرزمین ہمیشہ غیر ملکیوں کے لیے قبرستان بنی ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ترکی کو جو بھی فیصلہ کرنا ہو، وہ امریکہ کی خواہش کے بجائے تمام افغان سٹیک ہولڈرز کی ا گر مشروط اجازت ملے، تو بہتر ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان سیکورٹی فورسز اگر ایک ائیر پورٹ کی حفاظت نہیں کرسکتیں، تو پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کیادعوا غیر یقینی نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
ترکی میں افغانستان امن کانفرنس کا ملتوی ہونا اور افغان طالبان کا طویل المدتی اجلاس میں شرکت سے انکار سمیت اعلا سیاسی قیادت کو بھیجنے سے گریز اور ٹائم فریم نہ دینے سے ترکی کو سمجھنا ہوگا کہ افغان طالبان، اس وقت امریکی شکست کے بعد افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کو نزدیک دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان، ایران، سعودی عرب، متحدہ امارات اور ترکی کا احترام ضرور کرتے ہیں لیکن اب داخلی معاملات میں کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لا رہے۔
اس طرح چین اور روس کی جانب سے افغان طالبان کی قربتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ان کی ترجیحات اُن ممالک کی جانب زیادہ ہیں جو مستقبل میں انہیں دفاعی اور معاشی طور پر سپورٹ کرسکیں۔ ماضی کی پالیسیوں سے نئی جہت پر رواں افغان طالبان کی منشا اور خواہش اب کسی خاص ملک کے ساتھ نہیں جڑی ہوئی۔ ممکنہ طور پرغیر ملکی فوجی انخلا کے بعد جب افغان اسٹیک ہولڈرز کے درمیان متفقہ معاہدہ عمل میں آجاتا ہے، تو سیاسی و سفارتی تعلقات میں امریکہ کو بھی نظر انداز کیا جانا ممکن نہیں ہوگا، لیکن یہاں امریکہ کو ماضی کی غلط پالیسیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ترکی، نیٹو اتحاد کا اہم ملک ہے۔ اخلاقی و قانونی طور پر امریکہ انخلا کے بعد نیٹو کے جب تمام ممالک اپنے فوجیوں کو واپس بلا رہے ہیں، تو ترکی کو بھی اپنی فوجیں بلانے کے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔ افغان طالبان اپنی عسکری طاقت پر بھروسا کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا مفاداتی ٹکراؤ پڑوسی یا مسلم اکثریتی ملک کے ساتھ ہو۔ ترکی کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ تنازعات اپنی جگہ، جس کے حل کے لیے انہیں افغانستان کے کندھے پر بندوق رکھنے سے گریز کرنا چاہے۔ خطے میں پائیدار اور مستحکم امن کے لیے ترکی کا کردار اس سے زیادہ اہم ہے کہ وہ امریکہ کی خواہش پر افغانستان میں رُکے اور تنازعہ طول پکڑے۔
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔