پچھلے دنوں ایک واقعہ اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوا جس نے ملک بھر خاص کر صحافی تنظیموں میں ایک بے چینی برپا کر دی۔ اس کا جو پس منظر بتایا گیا جو گو کہ خاص نیا نہ تھا، کیوں کہ پاکستان جیسے ملک میں ایسے واقعات ہونا عجیب بات تو نہیں۔ اس سے پہلے ایسے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں۔ خاص کر ضیاء الحق کے مکروہ دور میں تو انتہا ہوئی، یعنی تقریر و تحریر پر قدغن ہمارے ہاں ہر دور میں رہی، مگر اب جب کہ ’’ای ٹیکنالوجی‘‘ کا دور ہے اور سوشل میڈیا نے ہر نظام کو الٹ پلٹ دیا ہے۔ اب جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا عملاً ممکن ہی نہیں رہا۔ سو اس وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان میں میڈیا کے حوالے سے بے شمار سوالات کھڑے ہوچکے ہیں۔ سندھ کے ایک صحافی کا قتل ہوا۔ حامد میر کو گولیاں لگیں۔ ابصار عالم پر حملہ ہوا۔ مطیع ﷲ جان کو حراست میں رکھا گیا۔ ارشد سہلری کو دھمکایا گیا اور اب نیا واقعہ اسد طور والا رونما ہوا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اسد طور نامی صحافی کو جو نہ صرف آج چینل کا پروڈیوسر ہے بلکہ ایک معروف بلاگر اور یوٹیوبر بھی ہے، کے گھر میں گھس کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اسد طور کے مطابق یہ کام شاید کسی ایجنسی کے اشخاص نے کسی اعلا سرکاری افسران کی ہدایت پر کیا ہے، مگر جب اسد طور نے اس بات کو میڈیا میں بیان کیا، تو وہی گھسا پٹا بیانیہ دیا گیا کہ اسد طور کے چوں کہ کسی لڑکی سے تعلقات تھے، یا اس نے کسی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا، اس وجہ سے اس خاتون کے لواحقین نے اسد طور پر حملہ کیا۔
یہ بہت دلچسپ معاملہ ہے کہ آپ کسی مخالف یا صحافی کو سبق سکھائیں اور آرام سے بول دیں کہ چکر کسی خاتون کا ہے۔ یہاں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کے مقدمہ میں کیس چل رہا تھا، تو ایک دن اچانک ایک فوجی جوان گن لے کر عدالت میں کھڑا ہو گیا اور چیخ کر بولا کہ اگر بھٹو صاحب کو کچھ ہوا، تو میں سب کو مار دوں گا۔ اب فوجی حکومت واسطے یہ بات حیران کن تھی اور یہ خدشہ تھا کہ اگر یہ خبر اسی طرح سچائی کے ساتھ باہر جاتی ہے، تو بارکس میں ممکنہ طور پر اثر پڑسکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسے کچھ اور واقعات ہوں جو کہ اپنے نتائج اور شدت کے لحاظ سے زیادہ پُراثر ہوں۔ جیسا کہ بعد میں فوج کے جونیئر افسران کی ایک حکمت عملی یا سازش کہہ لیں، سیٹھ عابد کی وجہ سے پکڑی گئی۔ جب لاہور سے کچھ جونیئر افسران کو گرفتار کیا گیا جو کور کمانڈر میٹنگ میں کسی انتہائی اقدام کو کرنے واسطے تیار تھے۔ خیر، اسی وجہ سے اس فوجی جوان کے اس اقدام کو چھپانا مقصود تھا۔ اب چوں کہ یہ واقعہ بہت واضح اور بہت لوگوں کے سامنے ہوا تھا، سو اس کا حل یہی نکالا گیا کہ آرمی کی جانب سے یہ خبر دی گئی کہ مذکورہ فوجی جوان کا فوج سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا بلکہ یہ ایک پیپلز پارٹی کا کارکن تھا جو فوجی یونیفارم پہن کر آ گیا تھا، مگر تاریخ کا جبر ہے کہ سالوں بعد اس واقعہ کو جنرل چشتی نے اپنی کتاب میں مکمل سچائی کے ساتھ رپورٹ کر دیا۔
اب بے شک حالات 80ء کی دہائی کے نہیں ہیں۔ اب یہ ممکن نہیں کہ آپ ہر تنقیدی زبان کو جبر و طاقت کے ذریعے خاموش کر دیں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ عوام میں عزت و احترام بھی ہو۔ دنیا کی معلوم تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ طاقت کے زور پر آپ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں مگر عزت نہیں۔ چوں کہ یہ واقعہ فوج کے حوالے سے ہے، سو میں مکمل انکساری اور احترام کے ساتھ فوج کے کردار سے بات شروع کرنے کی جسارت کروں گا۔
فوج کے واسطے اول تو یہ ضروری ہے کہ وہ انگریزی اور ’’کالونین دور‘‘ کا یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرے کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے بھی محافظ ہم اور ملک کی نظرباتی سرحدوں کے بھی محافظ ہم ہی ہیں۔ ملک میں کون سی جماعت کی حکومت ہو؟ یہ فیصلہ بھی ہم نے کرنا ہے اور کس کو کس وقت غدار بنانا ہے، اس کا فیصلہ بھی ہم کریں گے۔ ملک کے تمام اداروں کی ترقی و ترویج کے ذمہ دار ہم ہیں۔ اس فکری سکول اور سوچ کو اب مکمل بدلنا ہوگا اور فوج بھی کیا بلکہ چند کور کمانڈر، کیوں کہ جب ملک میں مارشل لگایا جاتا ہے، تو غیر آئینی طریقہ سے سول حکومتوں کو پلٹا جاتا ہے۔ عوامی نمائندوں کو راتوں رات غدار وغیرہ بنایا جاتا ہے، تو کیا آپ ائیر فورس، نیوی، رینجرز، لیوی بلکہ بری فوج کی بارکس کی رائے لیتے ہیں؟
اپنے اقدامات کے نتائج پر جب سوال ہوتے ہیں، تو سیاچین میں ڈیوٹی پر موجود جوان کا نام تو آپ استعمال کرتے ہیں مگر جب مارشل لا لگاتے ہیں تو کیا اس سے مشورہ کرتے ہیں؟ محض چند کور کمانڈرز کے فیصلے کو آپ کس اخلاقی یا قانونی جواز کے تحت پوری مسلح افواج کا فیصلہ کہہ سکتے ہیں؟
سو، اب وہ وقت آگیا ہے کہ فوج کے ادارے کو اب مکمل طور پر غیر سیاسی کیا جائے۔ حالات کچھ بھی ہوں، فوج بالکل مداخلت نہ کرے۔ البتہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح وہ اپنی حاصل کردہ معلومات سول سوسائٹی، حکومت، سیاسی جماعتوں یا صحافیوں کے ذریعے متعلقہ اشخاص یا ’’کواٹرز‘‘ تک پہنچا دیں، لیکن وہ خود کسی بھی صورت میں ’’سول سپرمیسی‘‘ سے باہر نہ ہو۔
حکومتیں بنانا، سیاست دان لانچ کرنا اور عوامی راہنماؤں کو ’’سکینڈلائز‘‘ کرنا فوراً ختم کر دے۔ اسی میں ملک و قوم اور فوج کی بقا ہے۔ احترام، دھونس اور جبر سے نہیں، رویہ اور اخلاق سے ملتا ہے۔
دوسرا ہم اعلا عدلیہ سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب وہ سلیکٹیڈ انصاف کو ختم کرے اور خاص کر طاقتوروں کے آگے جھکنا بند کرے، اور مکمل دلیری سے انصاف کا اجرا کرے؟ کیوں کہ یہ بات تو واضح ہے کہ ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ہی حکمرانوں خاص کر جرنیلوں کی لونڈی بنی رہی اور ہر غیر آئینی اور جبر کے اقدام کو سند بخشتی رہی، بلکہ میرا خیال ہے کہ اگر عدلیہ کا قبلہ درست ہو جائے، تو بہت سے معمولات شاید خود بخود ہی درست ہو جائیں۔
یہاں ہم سول حکومت اور سیاسی راہنماؤں سے بھی یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ بھی خواہ مخواہ ہر چیز اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے۔ ان کا اولین فرض ملک و قوم واسطے ڈیلیور کرنا ہے۔ کیوں کہ ان کی کرپشن ’’مس گورننس‘‘ اور نااہلی قوم کے اندر جمہوری اداروں پر عدم اعتماد کا باعث بنتی ہے اور وہ لامحالہ متبادل کے طور پر فوج کی طرف دیکھتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر مارشل لا جو کہ بے شک تباہی و بربادی لاتا ہے کہ وقت مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہے اور قوم اس کو بخوشی قبول کرلیتی ہے۔
اب یہ تو بے شک ممکن ہے کہ حکومت کا بچھاڑ بلکہ عملی قبضہ بے شک چند جرنیلوں کی ہوس حکومت ہوسکتا ہے، لیکن اس میں جمہوری حکومت کی خراب سے خراب تر کارکردگی یا معاملات کا مناسب حل نہ کرنا بھی اہم ترین فیکٹر بلکہ اصل فیکٹر ہوتا ہے۔ سو، ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔
جاتے جاتے میڈیا کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے صحافی دوستوں کو بھی اپنے پروفیشن سے وفاداری کرنا ہوگی۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا کام خبر دینا اور تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ اوپینئن میکر یعنی رائے بنانے کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ عوامی حلقوں میں آپ دیکھ لیں کہ صحافت کا انتہائی منفی تاثر ہے۔ عمومی طور پر صحافیوں کو بلیک میلر اور کرپشن کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں صحافتی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اہم ضابطۂ اخلاق دوبارہ تشکیل دیں اور خود میں موجود کالی بھیڑوں کا محاسبہ کریں۔ یہ نہیں کہ ہر واقعہ پر بنا تحقیق جتھا بنا کر غلط اور درست کا خود فیصلہ کرنا شروع کردیں۔
اس طرح میرا خیال ہے کہ سب سے زیادہ ذمہ داری عوام اور سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے وکلا، اساتذہ، شاعر اور ادیب، فلم میکر اور سپورٹس اور شوبز سٹار، علمائے دین، ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران سب میدانِ عمل میں آئیں اور قوم کی فکری راہنمائی کریں بلکہ ہم اپنے اپنے شعبہ کو باآسانی چن سکتے ہیں۔ مثلا سینئر سیاست دان اور صحافی، حکومت، سابقہ جج اور وکلا، عدلیہ اور سابقہ فوجی افسران، فوج پر دباؤ رکھیں۔ معاملہ کی حقیقت اور گہرائی میں جاکر حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔ یہ نہیں کہ محض ذاتی پسند و ناپسند کو لے کر وہ جان بوجھ کر قوم کو اول جذباتی کریں اور پھر ان جذبات کا منفی استعمال کریں۔
تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور ملک کو مہذب اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ تمام قوم کو سچ کی آواز بن کر چلنا ہوگا۔
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔