اقتدار کوئی گڈا گڈی کا کھیل نہیں بلکہ حکومت چلانے کے لیے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور ملک و قوم سے محبت رکھنے والے درد مند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ مفاد پرستوں کی۔
یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ کسی حکومت کو مسائل، مشکلات اور بحرانوں کا سامنا ہو۔ کیوں کہ مسائل، مشکلات اور بحران اقتدار کا لازم حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا حل برسرِ اقتدار حکمرانوں اور حکومتی اہلکاروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے جب کہ مسائل، مشکلات اور بحرانوں کا حل ڈھونڈنا حکومت میں شامل ماہرین کے لیے ایک چیلنج اور امتحان سے کم نہیں ہوتا۔
برسرِ اقتدار حکمران اور اُس کے ماہرین کی ٹیم ایسے موقعوں سے گھبرایا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ حکمتِ عملی کی بدولت ایسے حالات سے سرخ رُو ہو کر نکل جایا کرتے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ قائداعظم کے بعد اس ملک کو کوئی ایسا رہنما نہیں ملا جو اس بد قسمت ملک و قوم کو مسائل، مشکلات اور بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا۔ ہمیں آج تک جو بھی لیڈر ملے (ہمارا لیڈر آئندہ الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے جب کہ مہذب دنیا کا لیڈر آنے والی نسلوں کے بارے میں) وہ سب کے سب صرف اقتدار کے بھوکے اور مفاد پرست تھے اور ہیں۔ دولت اور اقتدار کے پجاریوں اور مفاد پرستوں نے اِس ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ملک کو گروی رکھ عوام کی گردن میں طوقِ غلامی ڈال دیا۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کے ورکروں کی 22 سالہ جد و جہد کے بعد پاکستانی عوام انھیں نجات دہندہ سمجھنے لگی۔ 2018ء کے قومی الیکشن میں تحریکِ انصاف کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا گیا۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے ہوئے اگست 2021ء کو تین سال پورے ہو نے والے ہیں، لیکن عمران خان اور اُن کی ماہرین کی ٹیم پاکستان کو مسائل اور مشکلات حل کرنے اور ملک کو بحرانوں سے بچانے یا نکالنے میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے جو اُن کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔
قارئین، شاید یہ تحریکِ انصاف کے اُن ورکروں کی بدعاؤں کا نتیجہ ہو جنہوں نے 22 سال دن رات محنت کر کے عمرن خان کو ایوانِ اقتدار تک پہنچایا، مگر عمران خان نے اُن دیرینہ اور مخلص ورکروں پر فصلی بٹیروں اور مفاد پرستوں کو ترجیح دی۔
اس طرح عمران خان کو اقتدار میں آتے ہی حزبِ اختلاف کی بلا نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ عمران خان آج تک اس کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف خراب معیشت نے عمران خان کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ معیشت کی حالت دن بدن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، جس کو سنبھالا دینے کے لیے اب تک چار وزیرِ خزانہ تبدیل کیے گئے۔ حکومت کو اب یہ فکر لاحق ہے کہ حزبِ اختلاف سے کیسے جان چھڑائی جائے اور معیشت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اتنے میں کورونا کی وبا نے پوری دنیا سمیت پاکستان کو بھی آ لیا۔ پھر جب کورونا کا دباؤ کچھ کم ہونے لگا، تو حکومت کو چینی، آٹا، ادویہ اور پیٹرول جیسے دیگر سکینڈلوں نے گھیر لیا۔ مذکورہ سکینڈلوں کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے عمران خان نے دعوا کیا کہ حتمی رپورٹ آنے کے بعد جو بھی قصوروار ہوا، اُس کو قرار واقعی سزا دی جائے گی لیکن عملی طور پر ہوتا کچھ نظر نہیں آ رہا۔
چینی سکینڈل رپورٹ میں عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہلانے والے جہانگیر ترین کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی اے نے اُن کے خلاف مقدمات درج کیے، تو تحریکِ انصاف میں جہانگیر ترین کا حامی گروپ عمران خان کے گلے پڑگیا۔
اب جہانگیر ترین گروپ میں اطلاعات کے مطابق چالیس ممبرانِ اسمبلی (ممبرانِ قومی اور صوبائی اسمبلی ) شامل ہیں۔ ترین گروپ نے دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر جہانگیر تر ین کے خلاف کارروائی نہ روکی گئی، تو وہ انتہائی قدم اُٹھاسکتے ہیں، جس میں سے ایک ’’سالانہ بجٹ اسمبلی سے پاس کرانے میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیں گے‘‘ ہے۔
پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین گروپ کی دھمکی کا شور ابھی بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل سامنے آگیا۔ عمران کے کسی بہی خواہ نے اُنھیں چند اکاؤنٹ نمبر، بعض فون نمبر، چار سرکاری افسروں کے نام، عہدے اور کوئی دس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج آپ کی حکومت ختم ہو جائے اور آنے والی حکومت آپ کے خلاف کوئی مقدمہ دائر کرنا چاہے، تو آپ کے لیے ’’راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل‘‘ ہی کافی ہوگا۔ یوں آپ ساری زندگی فائلیں اُٹھا کر ایک عدالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں دھکے کھاتے پھریں گے۔
اپنے ’’بہی خواہ‘‘ کے اِن انکشافات نے عمران خان کی نیندیں حرام کر دیں اور اُنھوں اُسی وقت راولپنڈ ی کی ساری انتظامیہ کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود، ڈپٹی کمشنر محمد انوار الحق، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم گلزار حسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگا یا اور اُنھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم بھی دے دیا۔
یوں کمشنر گلزار حسین نے 11 مئی تک رپورٹ تیار کی، جس کے مطابق راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے چالیس کلومیٹر رنگ روڈ کا منصوبہ پنجاب حکومت نے 2017ء میں تیار کیا۔ ’’بینک آف چائینہ‘‘ سے400 ملین ڈالر قرضہ بھی منظور ہوگیا تھا، لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ دوسرے منصوبوں کی طرح رنگ روڈکا منصوبہ بھی سرد خانے میں پڑگیا۔ پھر اچانک منصوبہ فعال کرنے کے ساتھ اس میں 26 کلومیٹر ’’اَٹک لوپ‘‘ شامل کیا گیا۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں اسلام آباد کے دو سیکٹر شامل کرتے ہوئے حکومت کو یہ باور کرایا گیا کہ ہمیں غیر ملکی قرضوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہماری اپنی کمپنیاں 66 کلومیٹر سڑک خود تعمیر کریں گی اور ’’ٹول ٹیکس شیئرنگ‘‘ کے ذریعے اپنی سرمایہ واپس لے لیں گی۔
رپورٹ میں دیگر انکشافات کے ساتھ ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ وفاقی وزیرِ ہوا بازی غلام سرور اور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی زلفی بخار ی نے بعض زمین مالکان اور ہاؤسنگ سوسائٹی اُونروں کو مالی فوائد پہنچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ میڈیا میں نام آتے ہی زلفی بخار ی نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا جب کہ وفاقی وزیرِ ہوا بازی نے پریس کانفرنس میں اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھانے سے بالکل انکار کیا۔
بیورو کریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی تو نہیں، لیکن اُس کی رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ کی یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیاست دان ، بیوروکریٹ، طاقت ور اشرافیہ، ادارے اور طاقت ور ریٹائرڈ افسران کس طرح مل کر پورے نظام کو یرغمال بناکر راتوں رات ملکی خزانہ سے اربوں کھربوں ڈکار لیتے ہیں، لیکن اُن سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔
عمران خان کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اُن کے اپنے وزیر اور مشیر اُن کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ عمران خان کو اپنے اقتدار کے دوران میں اور کتنے اسکینڈلوں اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجھے ان پر ترس اس لیے آ رہا ہے کہ وہ اکیلے ان سکینڈلوں اور بحرانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جب کہ اُن کے ارد گرد مافیا تالیاں بجا بجا کر خوش ہو رہا ہے۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔