روس اور امریکہ میں اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دونوں طاقتوں نے سفیروں کی بے دخلی اور پابندیاں عاید کرنے میں سخت پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان باہمی چپقلش اور تنازعات کے مشترکہ گراؤنڈ کشیدگی کو بڑھاؤا دے رہے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے ایک انٹرویو کے دوران میں روسی صدر کو ’’قاتل‘‘ کہنے پر ماسکو نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور امریکہ میں متعین سفیر کو واپس بلا لیا۔
روسی پارلیمنٹ ڈوما کے چیئرمین ’’ویاچیسلیو ویلوڈن‘‘ نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’پوتین پر حملے کا مطلب روس پر حملہ ہے۔ یہ ہسٹریائی کیفیت جواب نہ بن پڑنے کا نتیجہ ہے۔ پوتین ہمارے صدر ہیں اور ان کی ذات پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ ہمارے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔‘‘
صدر بائیڈن کی جانب سے اپنے دیرینہ حریف کے خلاف سخت دھمکی آمیز بیان میں کہا گیا تھاکہ وہ جلد اس کی قیمت ادا کریں گے۔ خمیازہ سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی خمیازہ دیکھ لیں گے۔اس پر روسی صدر نے جوبائیڈن کو کہا کہ جیسے وہ خود ہیں، دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ اب امریکی صدر، روسی صدر سے ملاقات بھی چاہتے ہیں اور تنازعات کو بڑھاوا بھی دے رہے ہیں۔
امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی کا ایک اور مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب امریکی جنگی بیڑوں کو بحیرۂ اسود تک باسفورس گذرنے کی اجازت نہ دینے کی خاطر ترک صدر کی صدر پوتین کے ساتھ فون پر بات چیت ہوئی۔ تاہم ترکی کی جانب سے محتاط بیان سامنے آیا کہ امریکہ نے انہیں بحیرۂ اسود سے جنگی جہازوں کے عبور کرنے کی اطلاع دے دی تھی۔ وزیرِ خارجہ ترکی نے اشارتاً یہ بھی کہا کہ دونوں جنگی بیڑے بحیرۂ اسود میں 4 مئی تک موجود رہیں گے۔ ماسکو، بحیرۂ اسود میں امریکی موجودگی کو ’’مونٹریکس معاہدے‘‘ کے مطابق عمل درآمد کرانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مذکورہ معاہدے کے مطابق ان آبی گذر گاہوں پر ترکی کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے، گر امریکی بیڑے گذرنا چاہتے ہیں، تو انہیں 14 دن قبل مطلع کیا جانا ضروری ہے۔
آبنائے باسفورس استنبول سے گزرنے والا وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرۂ اسود کو بحیرۂ مرمرہ سے ملاتا ہے۔ اس بحری راستے کو بڑی تعداد میں بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ ترکی کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر امریکہ کے اعتراضات اور پابندیوں کے باوجود روس اور ترک دفاعی معاہدے قائم ہیں اور روس نے ترکی میں ائیر ڈیفنس سسٹم ایس 400 لگا دیا ہے۔
ترکی اور روس کے درمیان دفاعی معاہدوں کے بعد امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات بہت پیچیدہ ہوچکے ہیں، تاہم خطے میں امن کے لیے دونوں عالمی طاقتوں کو مشترکہ امور پر آگے بڑھنا ہوگا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ روس امریکہ تعلقات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ کیوں کہ جاری حالات متقاضی بھی ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ انتظامیہ اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لائے جو ابھی تک دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں ہفتے امریکی بحری جہاز جان پال جونز (ڈی ڈی جی) 53 نے ’’لکش دیپ جزائر‘‘ کے مغرب میں تقریباً 130 ناٹیکل میل کے فاصلے پربھارت کے خصوصی اقتصادی زون میں ایک مشقوں کی مہم کی انجام دہی کا دعوا کیا ہے۔ یہ مشقیں 7 اپریل کو ہوئیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ بھارت سے اجازت لیے بغیر ہوئیں۔ اس واقعے کی تصدیق امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے نے خود کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے اس کا حق بھی حاصل ہے اور آزادی بھی۔ ساتواں بیڑا امریکی بحریہ کا سب سے آگے تعینات رہنے والا بیڑا ہے اور اس کے دائرہ کار میں مغربی بحر الکاہل اور بحر ہند شامل ہیں۔
سمندری گذرگاہوں پر امریکہ کی موجودگی سے خطے کے دیگر ممالک میں تشویش کی لہر کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ کیوں کہ امریکہ آبی گذرگاہوں پر اپنی اجارہ داری اور حریفوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔
روس اور امریکہ کی کشیدگی کا ایک اور اہم معاملہ یوکرین کی سرحدوں پر روسی افواج کی نقل و حرکت ہے، جس پر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کو اعتراض ہے۔جرمنی اور فرانس نے روس افواج کی پیش قدمی پر سخت انتباہ جاری کی ہے، تاہم روس نے یوکرین پر کشیدگی بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں افواج کی نقل و حرکت کے عمل میں آزاد ہے۔ تاہم علاحدگی پسندوں کی مبینہ مدد کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
روسی افواج کے اضافے پر بھی روسی صدر کے ترجمان پیسکوف کا کہنا تھا کہ یوکرین، مشرقی علاقے میں لائن آف کنٹرول پر مبینہ اشتعال انگیز اقدامات کررہا ہے، جس سے روس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے اور صورتِ حال کی سنگینی میں شدت پیدا ہو رہی ہے ۔
روس سرد جنگ کے بعد عالمی طاقت کی سرفہرست پوزیشن میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے۔ ایک جانب اپنے داخلی معاملات کو پوتین کی پالیسیاں امریکہ کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہیں، تو دوسری جانب امریکہ کے دھمکی آمیز لہجہ اور رویہ کی وجہ سے حالات و معالات اعتدال پر آنے کے بجائے مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ امریکہ دنیا میں اپنے فروعی مفادات کے لیے کئی ممالک کی خانہ جنگیوں کا مؤجب بھی بنا ہوا ہے، تو براہِ راست مداخلت بھی کررہا ہے، تاہم اپنی پالیسیوں کی نظرِ ثانی کے لیے بھی اقدامات اٹھا رہا ہے، لیکن روس کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے۔
خطے میں امن کے لیے دونوں عالمی طاقتوں کو سوچنا ہوگا کہ انہیں دراصل کرنا کیا ہے اور یہ کہ عالمی امن کے لیے ان کی پالیسیاں کیا ہونی چاہئیں؟اس شش و پنج کے نتیجے میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
پہلے ہی مختلف ممالک خانہ جنگیو ں اور طویل جنگوں کے مضمرات سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ طویل جنگوں کی وجہ سے ان ممالک کے فوجی نفسیاتی مریض بنتے ہیں۔
سابق صدر ٹرمپ کے دور میں عدم برداشت کا رجحان عالمی امن کے لیے خطرات کا مؤجب بنا رہا۔ عالمی طاقتوں کو اس منفی رویے کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مخالفت کی حوصلہ افزائی سے معاملات گھمبیر نہج تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں معاملات مزید کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ روس اور امریکہ عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
امریکہ کے اندر جو کھچڑی بھی پک رہی ہو، لیکن روس کو معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
روس کے صدارتی ترجمان ’’دیمیتری پیسکوف‘‘ نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ تعلقات میں خرابی پر مبنی ہر قسم کی کوششوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پیسکوف نے ماسکو میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں، مگر ہمارے خلاف جارحانہ عزائم اور سازشوں پر خاموش بھی نہیں رہا جا سکتا۔
روسی ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا ہمیں کوئی شوق نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گر نہیں کہ روس، امریکہ سمیت دیگر ممالک کی دھمکیوں اور اپنے ملکی مفادات کے خلاف سازشوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گا۔
شدید کشیدگی کے باوجود امریکہ اور روس کے درمیان تخفیفِ جوہری اسلحہ کا معاہدہ ’’نیو اسٹارٹ‘‘ میں پانچ برس کی توسیع کو سراہا گیا کہ معاہدے کی تجدید سے تخفیفِ جوہری اسلحہ کا یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک استحکام کے حامل عالمی توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہوگا۔ اس اہم فیصلہ سے اسلحے کو کنٹرول میں رکھنے اور عالمی تحفظ کے خلاف ممکنہ خطرات کو روکنے میں مدد کرے گا۔
قارئین، سرِ دست جو ماحول بنتا نظر آرہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ امریکہ، روس کے خلاف مزید پابندیا ں عاید کرنے کی روش کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بالخصوص امریکی صدراتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کے الزامات پر صدر جوبائیڈن اپنا سخت مؤقف رکھتے ہیں۔
دوسری طرف روس سمجھتا ہے کہ امریکہ ان کے خلاف چوں کہ روایتی یا غیر روایتی ہتھیاروں کی جنگ کرنے کی کوشش نہیں کرسکتا اس لیے وہ نفسیاتی جنگ لڑرہا ہے۔ جنگ کی اس نئی قسم کو ’’ذہنی جنگ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ روس کے نزدیک اس جنگ کا مقصد حریفوں کی تہذیبی ستونوں کو ختم کرنا ہے۔
اس طرح روس نے امریکہ پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ پوتین، ایوانِ صدر، فوج، اور نوجوانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں معاشی اور غلط معلومات کی فراہمی کا منفی پروپیگنڈا بھی کررہا ہے، جو لوگوں کے ذہنوں کو چھیڑنے کے لیے ایک نئی جنگ ہے۔روس کے نزدیک یہ ان پر قابوپانے کی نئی حکمت عملی ہے۔
قارئین، روس اور امریکہ کے درمیان زمینی تا خلائی، سفارتی یا سیاسی، سماجی یا مذہبی سے لے کر ہر تنوع کی علانیہ اور غیرعلانیہ جنگ جاری ہے۔ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے نئے میدانوں سے خطہ میں امن کو خطرہ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طاقتیں، ماضی کی پالیسیوں سے اجتناب برتیں اور بے جا پابندیوں سے نئے محاذ کھولنے سے گریز کریں کہ دنیا کورونا جیسی عالمی وبا میں کسی اور مشکل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔