پچھلے دنوں جناب وزیرِ اعظم نے (جو ٹیلی فون پر عوام سے براہِ راست گفتگو کرتے ہیں جو کہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں مکمل پلانٹیڈ ہوتی ہے) میں عوام کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ملک میں عمومی جنسی تشدد اور عورتوں سے بالجبر زیادتی کی ایک بڑی وجہ ہمارے میڈیا خصوصاً شوبز کے حوالے سے پروگرام ہیں۔ بقول محترم وزیراعظم کے ہمارے ڈراموں اور فلموں میں خواتین کرداروں کے لباس ہیجان خیزی کا باعث بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ بقولِ وزیراعظم صاحب ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر خواتین کا لباس بھی قابلِ اعتراض ہے۔ اس کو دیکھ کر ہمارے مرد حضرات جنسی بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں، جو آئے روز معاشرے میں خواتین سے زور زبردستی کا مؤجب بنتے ہیں۔
وزیرِاعظم نے یہ بھی اطلاع دی کہ چوں کہ ہمارا معاشرتی ڈھانچا اور نظام خالصتاً مشرقی اقدار پر مبنی ہے جہاں مذہبی رحجانات مکمل اجارہ داری رکھتے ہیں اور پھر ہمارا ثقافتی رویہ اور سماجی روایات اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم اس طرح کا کھلا ماحول بنائیں جو مغرب میں ہے۔ سو اس کی وجہ سے جنسی ’’فرسٹریشن‘‘ کو مٹانے کا کوئی طریقہ ہی نہیں اور اس وجہ سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
قارئین، اگر مختصر طور پر وزیراعظم کی بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، تو وہ یہ ہے کہ یا تو ہماری خواتین کا لباس انتہائی شعری حدود میں باپردہ ہو اور اگر یہ ممکن نہیں، تو ملک میں فحاشی کے اڈے اور چکلے بنانے کی اجازت ہو، تاکہ ہمارے لوگ کو ایک طریقہ ایسا مل جائے کہ وہ کوئی غیر فطری طریقہ اختیار نہ کریں۔ اب جب کہ پاکستان جیسے ملک میں ’’کلب مساج سینٹر‘‘، چکلے اور فحاشی کے اڈے بنانا چوں کہ ممکن نہیں، پس خواتین کو افغان ٹوپی والے برقعے پہنا دیے جائیں۔
وزیراعظم کے اس بیان کے بعد دونوں طرف کے انتہا پسند میدان میں آگئے ہیں۔ ایک طرف وہ ’’ریجڈ‘‘ اور رجعت پسند طبقہ ہے جو وزیراعظم کے اس بیان کو عین اسلامی اور دین کی روح کی تعلیمات سمجھ کر یہ تقاضا کر رہا ہے کہ ملک میں فوری طور پر ایسے قوانین تشکیل دیے جائیں کہ جس سے ہر خاتون ٹوپی والا افغان برقعہ پہن کر گھر سے نکلے اور وہ بھی تنہا نہیں بلکہ کسی محرم مرد کے ساتھ۔
دوسری طرف میڈیا پر سخت پابندیاں لگائی جائیں۔ فلم سینسر بورڈ کی تشکیل نو کی جائے۔ ٹی وی پر سخت قسم کی مونیٹرنگ ہو، بلکہ موجودہ حالات کے تحت کرنٹ افیئرز اور نیوز کاسٹر خواتین کو روک دیا جائے۔ ڈراموں اور فلموں میں خواتین کے کردار نہایت باوقار اور مہذب ہوں۔ اس سلسلے میں ترکی کے مشہورِ زمانہ ڈرامے ارطغرل کی مثال دی جاتی ہے۔
اب دوسری طرف لبرل اور نام نہاد روشن خیال طبقہ بھی میدان میں آگیا۔ وہ ایک دم شکاری بھیڑیوں کی طرح وزیراعظم کے اس بیان پر جھپٹ پڑے۔ انہوں نے وزیراعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی اور ایک دل چسپ بیانیہ پیش کیا کہ اگر کسی خاتون کے لباس کی وجہ سے اگر کسی اوباش کو اس عورت کی آبرو ریزی کی توجیح پیش کی جا سکتی ہے، تو پھر بنک میں موجود بے شمار نوٹوں کو دیکھ کر کسی غریب کو ڈاکہ زنی کی اجازت بھی دینا ہوگی۔ ان کے خیال میں وزیراعظم نے یہ بیان دے کر مجرموں کی وکالت کی اور ساتھ میں ملک کی ایک بڑی تعداد کی خواتین کی توہین بھی کی ہے۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں اطراف کا بیانیہ انتہا پسندی پر مبنی ہے۔ اب یہ بات کلی طور پر فرض کرلینا کہ ہماری شوبز انڈسٹری یا بیرونِ ملک سے دکھایا جانے والا مواد معاشرے پر بالکل اثر انداز نہ ہو، تو یہ ممکن نہیں۔ اسی طرح ہماری کچھ خواتین کا مغرب زدہ لباس کسی ہیجانی کیفیت کو جنم نہیں دیتا، تو یہ قطعی غلط ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ ہماری اپنی اقدار ہیں اور مغرب کی اپنی۔ مغرب میں بھی لباس بہرحال ایک وجہ بنتا ہے، لیکن ان کا معاملہ اس وجہ سے مختلف ہے کہ اول تو وہاں مرد بچپن سے نفسیاتی طور پر عادی ہوتا ہے۔ پھر یہ بات بھی بڑی حد تک صحیح ہے کہ وہاں بہرحال ثقافتی ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہاں ’’گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کلچر‘‘ عام ہے۔ پھر وہاں مساج سینٹر کے نام پر فحاشی کے اڈے ہر محلے میں موجود ہیں۔ جہاں چند ڈالر خرچ کر کے آپ جنسی بھوک مٹا لیتے ہیں، لیکن یہاں تو ایسا ممکن نہیں۔ سو بہرحال یہ ایک وجہ تو ہے۔
ہم اگر دوسری طرف غور کریں، تو یہ کہنا کہ خواتین کا لباس ہی محض اس کی وجہ ہے، بھی غلط ہوگا۔ کیوں کہ اگر محض یہ وجہ ہو، تو پھر جو ہمارے مثلا خیبر پختون خوا اور بلوچ روایتی قبائل ہیں، تو وہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ پھر وہاں ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ پھر معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی کیا توجیح ہوسکتی ہے؟کیوں کہ ایسے بہت سے واقعات ہوئے کہ جہاں اچھے خاصے مذہبی رحجانات کے شادی شدہ مرد ایسے واقعات میں ملوث پائے گئے کہ انہوں نے معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی کی، بلکہ معاذ اﷲ کچھ بدبخت تو اپنے ہی گھر کی محرم بچیوں کے ساتھ یہ کر گزرے۔ وہاں کسی لباس کی کشش یا میڈیا کی ہیجان خیزی بالکل نہ تھی۔ سو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مکروہ جرائم کی بیخ کنی واسطے دونوں اطراف کے نکتۂ نظر اور حقائق کو سمجھ کر موزوں قانونی سازی کی جائے اور ہر پہلو کو مد نظر رکھا جائے۔
ہماری تجویز ہے کہ ایک بڑی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں علمائے دین، مذہبی سکالر، ماہرِ تعلیم، سماجی کارکنان، سیاسی راہنما، اعلا افسران، وکلا، سابقہ جج حضرات اور سب سے بڑھ کر نفسیاتی و معاشرتی علوم کے ماہرین شامل ہوں۔ پھر ان کی تجاویز کو عام عوام کے سامنے رکھ دیا جائے۔ سول سوسائٹی کو اس پر عام بحث کی دعوت دی جائے۔ ہر ایک سے تجاویز لی جائیں اور پھر اس کا ایک حتمی مسودہ بنا کر پارلیمنٹ میں مزید بحث واسطے پیش کیا جائے۔ یوں پارلیمنٹ کی حتمی منظوری کے بعد اس کو نافذ العمل کیا جائے۔ اگر اس کو سنجیدہ نہ لیا گیا اور اوپر تحریر شدہ مذکورہ دو انتہا پسند رویوں کے عامل طبقات ہی کی نظر سے دیکھا گیا، تو ایسا کوئی بھی قانون اور طریقہ بجائے مثبت اثرات کے زیادہ منفی اثرات کا باعث بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس موضوع کو تابو (tabu) یعنی ممنوعِ کل نہ سمجھیں۔ حضرت علی کا قولِ مبارک ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت نئے حالات اور ماحول کے مطابق کرو۔ کیوں کہ ان کے نفسیاتی رویے نئے دور کے تقاضوں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ حالاں کہ تب معاشرتی رویوں کی تبدیلی بہت سست تھی، لیکن آج جب میڈیا خاص کر سوشل میڈیا نے دنیا میں علمی انقلاب برپا کر دیا ہے اور بہت سی چیزیں چاہنے کے باجود بھی آپ کے کنٹرول سے باہر ہوچکی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ڈراموں اور فلموں کو مقامی طور پر کنٹرول کرلیں گے۔ غیر ملکی ’’کونٹینٹ‘‘ کو سخت چیکنگ سے گزارنے کی کوشش کریں گے، لیکن اس کے باجود آپ اس کو مکمل کیا 50 فی صد بھی کنٹرول نہیں کرسکتے۔ آج موبائل کے ایک کلک پر سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔ آپ ’’ویب سائٹس‘‘ کو کہاں تک کنٹرول کرسکتے ہیں جہاں ہر منٹ میں ٹنوں کے حساب سے فحش مواد اَپ لوڈ ہو رہا ہے۔ پھر فیس بک، ٹک ٹاک اور ٹوئیٹر تو آپ کنٹرول کر ہی نہیں سکتے۔ سو یہ عملی طور روکنا ممکن ہی نہیں۔ تو اس وجہ سے آپ آب رو ریزی جیسے قبیح عمل کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں یا اس سے صرفِ نظر کیسے کرسکتے ہیں؟
پس اسم کا حل بے شک موزوں قوانین ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت بھی ہے۔ اب وہ دور آچکا ہے کہ جب آپ بچوں کو جس طرح واضح یہ سمجھاتے ہیں کہ ان کو کیا کھانا ہے اور کیا نہیں، کیا کھیلنا ہے اور کیا نہیں! بالکل اسی طرح اب ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ ان کو کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں! ان کو اس بات سے قطع نظر کہ کسی لڑکی نے کیا لباس پہنا ہے، اس کے ساتھ کیا رویہ اپنانا ہے؟ یہ بنیادی تعلیم والدین اور ان کے بعد پرائمری سکول کی سطح پر لازمی دی جائے۔ پھر اپنے علمائے دین اور ہائی سکول سے لے کر جامعات کے اساتذہ تک یہ گزارش کی جائے کہ تواتر سے اس موضوع کو لے کر بچوں کو سمجھائیں۔
لیکن اس کے باجود اگر مَیں یہ نہ کہوں، تو زیادتی ہوگی کہ ہمیں اسی طریقہ سے اپنی بچیوں کی بھی تربیت کرنی ہے کہ وہ لباس کے معاملے میں اپنے وقار و اقدار کا خیال رکھیں۔ تجربہ یہی ہے کہ مہذب لباس میں ملبوس خواتین کو جنسی دہشت گردی کا نشانہ کم بنایا جاتا ہے۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔