ازل سے یہ رسم جاری ہے۔ ابد تک جاری رہے گا، شائد……! قاتل اور مقتول ایک ہی زمانے میں جیتے ہیں۔
مملکتِ خداداد میں جو تماشے جاری ہیں۔ یہ دیکھ کے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہاں قاتل زیادہ اور مقتول کم ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کہ ہر کوئی ہاتھ میں شمشیر لیے ہے۔ منھ سے رال نہیں، خون رس رہا ہے۔ گویا قیامت ٹوٹ چکی ہے یا غدر مچ چکا ہے۔ غریب کا رکشہ جل رہا ہے۔ ایمبولنس کو راستہ نہیں مل رہا۔ جان بچانے کے لیے کوئی ہسپتال میں پناہ لیتا ہے، تو احتجاجی ہسپتال پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ ریاستی اور نجی املاک کو بلاتفریق نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔
قارئین، رحمتوں کا مہینا شروع ہوچکا ہے، لیکن لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ شیطان بند ہے لیکن انسانی شیطان مکمل آزاد ہیں۔ گذشتہ ہفتہ ملک بھر کی سڑکوں پر جو کچھ ہوا یہ یک دم نہیں ہوا۔ یہ اچانک نہیں ہوا، بلکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کیسے اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی؟
فیض آباد کا مشہورِ زمانہ دھرنا سب کو یاد ہوگا اور پھر اسے منتشر کرنے کا بھونڈا طریقہ جو اَب ’’ضرب المثل‘‘ بن چکا ہے۔اسی دھرنے پر فیصلہ دینے کی پاداش میں اعلا عدلیہ کا ایک نیک نام جج جسٹس فائز عیسیٰ جو ابھی تک معتوب ہیں، اب سالوں بعد جب حکومت کو ہوش آئی اور مذکورہ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ اعلا عدلیہ کے اس باہمت جج سے معافی بھی مانگے۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بند کرے اور سب سے اہم فیض آباد دھرنا کیس میں اس بنچ نے جو فیصلہ دیا ہے، اس کو من و عن نافذ کرے، تاکہ آئندہ کوئی فرد، گروہ یا پارٹی ریاست کو چیلنج نہ کرے۔

اعلا عدلیہ کے جسٹس فائز عیسیٰ جو آج کل معتوب ٹھہرائے جا رہے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے مملکتِ خداداد میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنہوں نے یہ پارٹی بنائی تھی اور جن مقاصد کے لیے بنائی تھی؟ یہ اب کوئی راز نہیں، لیکن ممکن ہے ان کو مستقبل میں پھر ایسے سر پھروں کی ضرورت پڑے۔ سو سرِدست تو پابندی لگا دی گئی ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ کسی اور نام سے یہ گروہ پھر سے سر اٹھالے۔
اصولی طور پر مذکورہ تنظیم نے اپنا مقصد حرمتِ رسولؐ سے نتھی کرکے خود کو بہت محترم و مقدم کرلیا ہے، لیکن مقاصد کے حصول کے لیے جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے، وہ صریحاً اسوۂ رسولؐ کی خلاف ورزی ہے، جس سے بدگمانیاں پیدا ہوگئیں اور ایک طبقہ ’’دین‘‘ کو کوسنے لگا، جو کہ بذاتِ خود زیادتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں لوگ مذہبی طبقے کی ہر غلطی کو اسلام کی غلطی سمجھ لیتے ہیں۔ بے شک وہ ایک مشہور مذہبی و سیاسی رہنما کی عصری سیاست کیوں نہ ہو، عوام اس کو مذہبی سیاست سمجھتے ہیں جو کہ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے۔ مسئلہ ان مذہبی طبقات کا بھی ہے جو اسلام کو من پسند تاویلات کے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں، جس سے اسلام عالم گیر دین کم اور ایک مخصوص فریقہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
خیر جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ اسلام کی نیک نامی ہوئی، نہ حرمتِ رسولؐ ہی کا پاس رکھا گیا۔ بعد از خرابیِ بسیار ایک پارٹی پر پابندی لگی، لیکن یہ ٹھوس حل نہیں۔ البتہ سرِدست ایک عارضی نسخہ ضرور ہے۔ امید ہے حکومت اس حوالے سے کوئی دیرپا حل نکال پائے گی، تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اسلام یا حرمتِ رسولؐ کا مقدس نام لے کر عام عوام پر حملہ آور نہ ہو۔
اس کے لیے نظام اور نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ مروجہ اور غیر مروجہ تعلیم جیسا کہ (تعلیمِ بالغاں، حجرہ، مسجد وغیرہ) کا بندوبست کرنا چاہیے، تاکہ ہر پاکستانی کو سمجھ آجائے کہ فرد کی آزادی کہاں تک ہے؟ احتجاج کا قانونی طریقہ کون سا ہے؟ دوسروں کی اِملاک کو نقصان پہنچانا کتنا بڑا ظلم ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسرا پاکستانی مجھ سے قطعاً کم محب وطن یا کم ایمان والا مسلمان نہیں۔
ریاستی اداروں کو چاہیے کہ ایسے بے ثمر پودوں کی آب یاری نہ کریں۔ کیوں کہ زقوم کی کاشت صرف کانٹوں کی پیداوار دیتی ہے۔ سیاسی چالوں کے لیے سیاسی جماعتیں کیا کم ہیں کہ اب مذہبی سیاسی ٹولے پال کے ریاست سمیت اسلام کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے۔
امید ہے کہ یہ سماجی غصہ ٹھنڈا ہوگا، تو ملک میں کسی ایک گروہ کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہوگی۔ ہفتۂ رفتہ کے احتجاج سے کچھ مثبت خبریں بھی نکلی ہیں جن پر کسی اور نشست میں بات ہوگی۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔