شہریوں کے لیے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شعبۂ صحت کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔یہاں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری علاج معالجے کی معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔
ہمارا ملک چین کا پڑوسی اور قریبی دوست ہے جس نے کورونا کو سب سے پہلے کنٹرول کیا۔ اگر ہم چاہتے، تو اس کی دوستی اور تعاون سے فائدہ اٹھا کر بروقت کورونا ویکسین کے لیے بجٹ مختص کرکے پاکستان کو سب سے پہلے کورونا سے پاک کرسکتے تھے، لیکن حکومت نے کورونا کے معاملے میں بھی وہی کیا جو بی آر ٹی پشاور کے معاملے میں کرتی رہی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں شعبۂ صحت طویل عرصے سے نظر انداز کیا جارہا ہے اور یہ رجحان اس کے باوجود جاری وساری ہے کہ مہذب دنیا میں اس شعبہ کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں حکومتیں اپنے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ مختص کرتی ہیں۔ گذشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کو دیکھیں، تو 11 کروڑ 12 ہزار 442 افراد پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب نے صحت پر 90 ارب 10 کروڑ خرچ کیے، یعنی ایک سال کے دوران میں ایک فرد کی صحت کے لیے محض 819 روپے۔
آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آنے والے صوبہ سندھ نے اپنے 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51 شہریوں کی صحت پر 62 ارب 50 کروڑ خرچ کیے یعنی سالانہ 1305 روپے فی شہری۔
ہمارے ملک میں جن بڑ ے شہروں مثلاً لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان میں اچھے سرکاری ہسپتال قائم ہیں، وہ پورے ملک کی آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تو کیا بلکہ ان شہروں میں رہائش پذیر شہریوں کو بھی معیاری علاج فراہم کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ یہاں ادویہ ہیں اور نہ مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹر۔ جو ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔ معمولی علاج اور ٹیسٹ کے لیے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر، مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں۔ نتیجتاً انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود ہر اچھے ڈاکٹر کا ایک پرائیویٹ کلینک بھی لازمی ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ہڈی پسلی ٹوٹے مریض کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔ مہلک بیماریوں شوگر، ہیپاٹائٹس، ٹی بی وغیرہ کو تو بالکل یتیم شعبہ جات تصور کیا جاتا ہے، جب کہ دور افتادہ پس ماندہ علاقوں اور دیہات وغیرہ میں تو لوگ علاج کی جدید سہولیات سے یکسر ہی محروم اور نیم حکیم قسم کے معالجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں جعلی ادویہ کا کاروبار بھی زور وشور سے جاری ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آئے روز ایسی خبریں نمایاں انداز میں شائع ہوتی رہتی ہیں، مگر تاحال شہریوں کی زندگی سے کھیلنے والے کسی گروہ کو اس طرح نشانِ عبرت نہیں بنایا جاسکا جو دوسروں کے لیے مثال بن سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پائی جانے والی فضائی آلودگی، ناقص خوراک، زہریلے سپرے والی سبزیاں، برائیلر گوشت اورخراب پانی کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا مریض ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ آبادی شوگر یا ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا شکار ہے۔ شوگر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ موت دیتی ہے یا موت جیسی زندگی۔ پاکستان جیسے کم سہولیات والے ملک میں یہ فقرہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی سفید پوش شخص کو علم ہوتا ہے کہ اس کو شوگر یا ہیپاٹائٹس بی سی وغیرہ کا مہنگا مرض لاحق ہوگیا ہے، تونہ صرف وہ بلکہ اس کے رشتہ دار، ماں باپ، بیوی بچے جیتے جی ہی مر جاتے ہیں۔
قارئین، آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 38 کے الفاظ کے مطابق ’’ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، جنس، ذات، عقیدہ اور نسل زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے۔‘‘ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق ملینیم چارٹر (UN Millenium Declaration)پردستخط کیے ہیں جس کے تحت ہر مہذب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحتِ عامہ کی بہتر سہولتوں سے مستفید کرے۔ شہریوں کو صاف ستھرا ماحول، صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک خوراک فراہم کرنے کے علاوہ غربت کے خاتمے کا بندوبست کرے تاکہ شہری کم سے کم بیمار ہوں۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں ہسپتال، ڈاکٹر اور صحت کے لیے کم بجٹ کا سامنا ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شعبۂ صحت میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس کا غلط استعمال روک دیا جائے، تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔ علاج گاہیں کم ہیں لیکن پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا کر بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اور دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
طب کے پیشے کا تعلق انسانیت کی خدمت سے ہے جس کے لیے انسانی ہمدردی کا جذبہ ضروری ہے۔ لہٰذا میڈیکل تعلیمی اداروں میں طلبہ میں یہ شعور بھی بیدار کیا جانا چاہیے کہ ان کا مقصدِ زندگی محض پیسا کمانا نہیں بلکہ انسانی خدمت کے ذریعے ربّ کی رضا اور اجرِ آخرت کا حصول بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شعبۂ صحت میں بہتر ی اور معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔