یہ 4 اپریل سن 1979ء کی نسبتاً گرم رات تھی۔ ڈسٹرک جیل راولپنڈی میں رات قریب دو بجے ایک کال کوٹھری کا دروازہ کھلا۔ اندر سوئے ہوئے قیدی کو جگایا گیا اور اس کو بتایا گیا کہ اس واسطے غسل کرنے کی سہولت ہے، جس کو قیدی نے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا وہ پاک ہے۔ پھر جیلر نے ’’بلیک وارنٹ‘‘ پڑھ کر سنایا اور اگلے چند لمحوں میں اس قیدی کو تختۂ دار تک پہنچایا دیا گیا۔ چند لمحوں کا کھیل تھا جب ’’تارا مسیح‘‘ نے لیور کھینچا، ایک جسمانی طور پر بھوک ہڑتال میں مقید قیدی جھٹکے سے موت کے کنویں میں گرگیا اور پھر مکمل خاموشی چھاگئی۔ بعد میں اس کو تابوت میں بند کر کے ’’پی اے ایف بیس‘‘ راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔ میت اگلے لمحے تاریکی میں سکھر ایئرپورٹ واسطے پرواز کرگئی اور سورج نکلنے سے قبل گڑھی خدا بخش میں چند بزرگوں اور مقامی مسجد کے امام کو بلا کر بس چند افراد نے جنازہ پڑھا اور میت کو فوجی جوانوں نے زمین میں دفن کر دیا۔ اس کے بعد مہینوں قبر پر اس طرح کا پہرا رہا کہ فاتحہ خوانی بھی چند فٹ دور سے ہی ہو سکتی تھی۔
یہ ساری کارروائی بہت پوشیدہ طور پر ہوئی۔ ڈسٹرک جیل راولپنڈی سے بہت قریب ’’سہالہ ریسٹ ہاؤس‘‘ میں اس قیدی کی بیوی اور بیٹی کو آخری دیدار سے مرحوم کر دیا گیا۔ تمام کارروائی کے دوران میں عوام کو بھنک تک نہ پڑنے دی گئی۔ دن گیارہ بجے ریڈیو کے بلیٹن میں اس کا سرکاری طور پر اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان سنتے ہی خیبر سے کراچی تک تقریباً ہر مرد و زن کی وہی کیفیت تھی جو سہالہ میں مقید اس قیدی کی بیٹی اور بیوی کی تھی، لیکن واردات کرنے والے واردات کرچکے تھے۔
جب ریڈیو پاکستان کی نیوز کاسٹر یہ خبر دے رہی تھی کہ قیدی کو فلاں قتل کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے سنائی جانے والی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو دنیا میں ہر عام شخص یہ سوچ رہا تھا کہ جب قتل کا ایک سادہ معاملہ تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سزا سنا دی تھی، تو قانون اور اصول بلکہ دین اور اخلاقیات یہ کہتی ہیں کہ مجرم کو صبح چار بجے موت کی سزا دے کر میت کو جیل کے باہر ورثا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہ جانیں اور میت جانے، کفن دفن جانے اور درود فاتحہ۔ خواہ وارث لاش کو دفن کریں یا جلا ئیں، ریاست کا عمل دخل اس میں بالکل نہیں۔
لیکن یہ کیسا مجرم تھا، یہ کیسا قاتل تھا کہ جس کے مقدمہ سے لے کر پھانسی تک اور جیل سے لے کر قبر تک سب کام غیر روایتی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر مذہبی طور پر ہوئے۔ جاننے والے تب بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ یہ کوئی قتل کا عمومی مقدمہ نہ تھا۔ متعلقہ شخص عام قاتل نہ تھا۔ پھانسی گھاٹ پر جھولنے والا کمزور جسم کسی ایک مجرم کا نہ تھا۔ جی یہ شخص جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ولد شاہنواز بھٹو ضلع لاڑکانہ تحصیل رتو ڈیرو اور گاؤں گڑھی خدا بخش تھا۔
یہ ایک قاتلِ عظیم تھا۔ یہ تب کی دنیا کا سب سے بڑا مجرم تھا۔ یہ ایک نہایت ہی روایات کا باغی اور نظام کو نقصان پہچانے والا سکہ بند شریر تھا اور اس کے جرائم کی فہرست اسلام آباد سے واشنگٹن تک بہت طویل تھی۔ اس مجرم نے اسلام آباد کے شرفا سے لے کر کراچی کے مہذب سیٹھوں تک، نامور صحافیوں سے لے کر مفاد پرست مولویوں تک، جرنیلوں سے لے کر جاگیرداروں تک اور لندن سے لے کر نیویارک میں مقیم دنیا کے بلا شرکتِ غیرے چوہدریوں تک کو للکارنے کا جرم کیا تھا۔
اس شخص نے دیسی گوروں سے لے کر بدیسی اصل گوروں تک، گاؤں کے چوہدریوں سے لے کر اعلا عمارات میں بیٹھ کر ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جاری کرنے والے فرعونوں تک سے بغاوت کا جرم کیا تھا، جو لاہور سے شروع ہونے والی اس تحریک کہ غریب غریب رہے اور امیر امیر تر ہوتا جائے کو قانون قدرت اور قسمت کا لکھا ماننے سے انکار کرتے ہیں، کا رہبر تھا۔اس کو لاہور سے نکال کر تیسری دنیا تک پھیلانے کا مجرم تھا۔
اس کی یہ بدمعاشی ناقابلِ قبول تھی کہ وہ قوم پرست بن گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو اس نہج پر لے آیا تھا کہ ملکۂ برطانیہ ’’پٹرول بچاؤ مہم‘‘ کی کامیابی واسطے علامتی طور پر بگھی پر سوار ہونا شروع ہوگئی۔
اس نے دو ٹوک یہ اعلان کر کے ’’ہنری کسنجر‘‘ کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
اس نے تیسری دنیا کے غریبوں سے مل کر بین الاقوامی غاصبو کو چیلنج کر دیا تھا۔ اس نے مسلم امہ کو ایک بلاک بنا کر مغرب کے شکنجے سے نکالنے کی ترغیب دی تھی۔ اس نے فتنۂ قادیان کو ہمیشہ واسطے حل کر کے ختمِ نبوتؐ پر قیامت تک قانونی طور پر مہر ثبت کر دی تھی۔ سو اس کو ’’عالمی شرفا‘‘ کیسے برداشت کرتے؟
پھر اس نے ملک کے اندر پہلی بار غربا اور مظلوم طبقے کو یک جا کر دیا تھا۔ اس نے عام عوام میں حقوق کا شعور بیدار کر دیا تھا۔ اس وجہ سے مزدور مل مالکان، مزارع اور ہاری، جاگیرداروں، سیاسی کارکنوں اور وزرا کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے ۔
اس نے اولاً عوام کو زبان دی، شعور دیا، عزت دی، احترام دیا۔ اب عرصے سے ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ اسے کیسے برداشت کرتا!سو ان تمام ’’شریفوں‘‘ نے مل کر اس شخص کو گھیرا۔ اصل فردِ جرم یہی تھی کہ تم نے ہمارے مفادات کا قتل کیا ہے اور اب اس کا نتیجہ دفعہ 302 کے بعد آپ کی سزا ہے موت۔ آپ کو گلے میں رسہ ڈال کر اس وقت تک تختۂ دار پر لٹکایا جائے گا کہ جب تک آپ کی موت واقع نہیں ہو جاتی۔ یوں مظلوں اور غریبوں کا سہارا اپنی حرکات کی وجہ سے منوں مٹی کے اندر جا کر سو گیا۔
قارئین، مَیں نے اوپر جو کچھ لکھا وہ کوئی میری ذاتی تحقیق نہیں، میرا ذاتی یا جذباتی رویہ نہیں بلکہ اس کا ثبوت اس دور کے جج جو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک کے ہیں، اس دور کے فوج کے افسران ہیں، اس وقت کی سول انتظامیہ اور اعلا ارباب اختیار ہیں، اس وقت کے باخبر صحافی اور سیاست دان ہیں، سب گواہ ہیں۔
اب تو یہ ’’اوپن سیکرٹ‘‘(Open Secret) ہو چکا ہے کہ بھٹو، نواب احمد خان کا قاتل نہیں تھا بلکہ ظالمان کے مفادات کا قاتل تھا۔ اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ آج اس کی جماعت کے شدید ترین مخالفین بھی کسی فوج داری مقدمے میں اس قتل کے مقدمے کو بطورِ تحویل پیش نہیں کرتے بلکہ اس کی سیاسی جد و جہد کو بطورِ نظیر پیش کرتے ہیں۔
آج پاکستان میں جرنل مشرف، عمران خان، نواز شریف، علامہ سراج الحق، اختر مینگل، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمان حتی کہ چوہدری شجاعت تک اس کو ملک کا غیر متنازعہ شہید تسلیم کرتے ہیں۔
بھٹو کے مقدمہ میں شامل فوجی افسران ہوں، یا پولیس کے ذمہ داران، اس کے مخالف پراسیکوشن کے وکلا ہوں، یا جج، سب اس سے معافی مانگتے ہوئے دارِ فانی سے کوچ کر رہے ہیں۔
وہ جس کو ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، آج بیالیس سال بعد بھی گڑھی خدا بخش سے ان کو للکار رہا ہے ۔ آج بھی عام غریب مزدور کے گھر پر کسی بھی جماعت کا جھنڈا ہو، لیکن گھر کے اندر اس کی تصویر موجود ہے۔ آج اس کے نواسے کے شدید مخالفین بھی اس کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم اپنے نانا کے منشور سے ہٹ گئے ہو۔ تو یہ بات اب مان لینی چاہیے کہ ’’چار اپریل‘‘ کو تختۂ دار پر جھولنے والا کم زور جسم تاریخ میں امر ہوگیا ہے۔ اس لاغر جسم سے زیادہ اس کی قبر طاقت ور ہوگئی ہے۔
دوسری طرف یہ تاریخ کا سبق ہے ان عناصر واسطے جو زمین پر خدا بننے کا دعوا کرتے ہیں۔ جو اس خدا کی زمین اور دنیا پر اپنا کلی حق سمجھتے ہیں۔ جو اس قسم کے غریب پرور دیوانوں کو مار کر اپنی فتح سمجھتے ہیں اور پھر ان طاقتوں کا پٹھو بن کر ساری زندگی لوگوں سے منھ چھپانا شروع کر دیتے ہیں۔
قارئین، مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ جب زمانۂ طالب عملی میں ایک دفعہ مَیں کچھ لوگوں کے ساتھ جسٹس انوار الحق کے پاس گیا کسی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے واسطے، تو جسٹس صاحب نے پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ وہاں بھٹو قتل کیس پر بات نہ کی جائے۔ مَیں نوجوان تھا، سو بول پڑا کہ ’’سر! کیا حرج ہے آپ اگر صحیح ہیں، تو جواب دے دیں۔‘‘ جسٹس صاحب مایوس اور شرمندہ مسکراہٹ سے بولے، عوام کو صیح بات سمجھانا ممکن نہیں! یہ سارا کیس ہی غلط اور دشمنی پر تھا۔‘‘
مَیں نے دوبارہ کہا، ’’سر! آپ نے دشمنی کیوں کی؟‘‘ تو جسٹس بولا: ’’شاید اس میں وہ صرف مہرہ تھا۔ اصل دشمن کوئی اور تھے۔‘‘
اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صرف جسٹس انوار الحق ہی نہیں بلکہ احمد رضا قصوری سے لے کر ضیاء الحق تک سب کے سب بہت معمولی مہرے تھے۔ اُن طاقتوں اور عناصر کے مہرے کہ جو دنیا میں مظلوم اور غریب کے دشمن تھے۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔