خلافِ توقع جو پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا، اس نے بہت حد تک پی ڈی ایم کا کام تمام کر دیا۔ اس میں عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیا گیا۔ خاص کر اس اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس سب باتوں سے آگاہ کرگئی۔ اب جو خبریں نکل رہی ہیں ان کے مطابق یہ ن لیگ اور پی پی کا مشترکہ طریقۂ واردات ہے جس کی آڑ میں سینیٹ کی چیئرمین شپ دوبارہ یوسف رضا گیلانی کی گود میں ڈالنا ہے اور حکومت کو ’’کیمو فلاج‘‘ کرکے عدم اعتماد کی تحریک لانا ہے۔
دوسرا نکتۂ نظر یہ ہے کہ آصف زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے اور یہ سب زرداری صاحب کسی کے اشارے پر سبوتاژ کر رہے ہیں۔
تیسرا بیانیہ یہ ہے کہ پی پی اور ن لیگ اپنے اپنے طریقہ سے بلیک میل کر کے اندرونِ خانہ اصل حکمرانوں سے معاملات طے کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن بظاہر عام عوامی تاثر یہ ہے کہ پی پی کو چوں کہ ابھی کسی فائدے کی توقع نہیں، سو وہ حکومت کو گھر بھیجنے میں حصہ دار نہیں بننا چاہتی اور جو اس کو مل رہا ہے، اس سے خصوصاً حکومتِ سندھ سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی۔ دوسری طرف ن لیگ اور خاص کر مولانا فضل الرحمان بہر صورت جلد از جلد اس کو منطقی انجام کو پہنچا کر نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ اس امید پر کہ تحریکِ انصاف کی غیر مقبولیت ان کے واسطے ایک بہتر موقع ہے حکومت میں آنے کا۔
یہاں پی پی کا بھی یہ خیال ہے کہ ہم کو مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ سندھ میں ہماری اکثریت کو چیلنج کرنا ممکن نہیں اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ہم ممکنہ طور پر اپنی پارلیمانی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
قارئین، بہرحال ان تمام سازشی تھیوریوں کے بعد ہم اس کو ظاہری تاثر کے طور پر لے کر اگر یہ دیکھیں کہ جو پی ڈی ایم میں دو بیانیے چل رہے ہیں، ایک مریم شریف کا اور دوسرا آصف ذرداری کا، تو ان میں سے سیاسی حقیقت اور قابل عمل کون سا ہے؟ اول یہ جان لیں کہ وہ نظریات کیا ہیں:
٭ مریم شریف مع نواز شریف و مولانا فضل الرحمان کا خیال یہ ہے کہ فوری طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر بھرپور احتجاج کیا جائے اور عمران حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے، تاکہ نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔ اس سے ان کو یقین ہے کہ نئے انتخابات کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف کو عبرت ناک شکست ہوگی اور ان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
٭ یہ نکتۂ نظر پی پی خصوصاً آصف زرداری کا ہے کہ حکومت پر اس حد تک سیاسی دباؤ ڈالا جائے کہ حکومت خود اپنے بوجھ سے گر جائے اور بجائے کل عوام میں عمران خان یہ جواز دے کہ ہم کو کام کرنے نہیں دیا گیا، اور ایک دفعہ پھر مافیا کے اتحاد کا نعرہ لگا کر آجائے، سو بہتر ہے فطری طریقہ سے اس کو ناکام کیا جائے۔
دوسرا ان کا یہ بھی خیال ہے کہ میاں صاحب اور مولانا والا طریقہ قابل عمل ہی نہیں، بلکہ الٹا باعثِ نقصان ہے۔ اس کا کامیاب نہ ہونے کا بہت زیادہ چانس ہے۔ کیوں کہ اگر ہم متوقع عوامی طاقت حاصل نہ کرسکے تو حکومت ضمنی انتخابات کروا کر اپنی پارلیمانی طاقت میں مزید اضافہ کرلے گی۔
قارئین، اب اگر بحیثیتِ سیاست کے طالب علم کے ہم اس پر ٹھنڈے دماغ سے غور کریں، تو کم از کم مجھے آصف ذرداری کی حکمت عملی بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے دو پہلو ہیں، ایک پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی اور دوسرا عوامی مفاد۔ سو میرا خیال ہے کہ اگر اس کو سیاسی طور پر دیکھا جائے، تو زرداری صاحب کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پی ڈی ایم میں ماسوائے ن لیگ کے خاص کر شمالی پنجاب میں کسی کی کوئی عوامی حمایت ہی نہیں، اور ن لیگ کا ’’حمایتی‘‘ ووٹ تو ڈال سکتا ہے، لیکن باہر نہیں آسکتا۔ سو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے عوامی دباؤ میں حکومت کی چھٹی ہو جائے، تو فطری خاتمہ کہاں ہو سکتا ہے؟ حکومت ضمنی انتخابات کروا کر اپنی پارلیمانی طاقت میں اضافہ کرلے گی۔ سو بہتر ہے کہ نظام کے اندر رہ کر جنگ کی جائے اور گذشتہ چند معاملات نے جیسے ضمنی الیکشن اور سینٹ الیکشن نے اس بات کو ثابت کیا اور حکومت کو شدید پریشان کیا۔ اسی زرداری فارمولا کے تحت کل عدم اعتماد کی تحریکیں وغیرہ حکومت کو الجھاؤ کا شکار اور سیاسی دباؤ میں رکھ سکتی ہیں۔
دوسرا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی دباؤ کے پیشِ نظر حکومت کی چھٹی بذاتِ خود جمہوریت واسطے کوئی نیک شگون نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اگر بالفرض آپ حکومت کی چھٹی بھی کروا دیتے ہیں، تو پھر عمران خان عوامی خاص کر تحریک انصاف کے ووٹرز میں مظلوم بن کر پھر ہمدردی حاصل کرلے گا۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف سیاسی ری ایکشن کا لازمی مظاہرہ کرے گی اور جوابی طور پر اسی انداز میں حکمتِ عملی ترتیب دے گی کہ جس سے سیاسی انارکی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اگر سیاسی پارہ کنٹرول نہ ہوسکا، تو پھر خدا نخواستہ کسی غیر آئنی اقدام کا جواز نہ مل جائے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جب ایک بار غیر آئینی قدم اٹھا لیا جائے، تو پھر سالوں شخصی آزادیوں اور جمہوریت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل جائے، تو سیاسی حلقوں کی جدو جہد سخت ہو جاتی ہے اور ماضی کے حوالے سے پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس طرح حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا، تو کل یہ ایک روایت کی شکل اختیار کر لے گا اور خصوصاً اگر تحریکِ انصاف حزبِ اختلاف میں آگئی، تو اس نے جذباتی طور پر یہی انتقامی رویہ اختیار کرنا ہے اور نئی بننے والی حکومت کا سانس ہمیشہ بند کرنے کی تگ و دو جاری رکھنی ہے۔ یوں سیاست دانوں کی اس نہ ختم ہونے والی باہمی لڑائی کی وجہ سے ملک و قوم کے مسائل جوں کہ توں رہنے ہیں کہ جس کی وجہ سے عام شخص جمہوریت کے خلاف ہوتا جائے گا اور جمہوریت بدنام ہوتی جائے گی۔ جو نہ ملک واسطے مناسب ہے نہ قوم واسطے بہتر ہے اور نہ خود سیاست و سیاست دانوں واسطے مناسب ہے۔
سو مندرجہ بالا تحریر شدہ حالات کے تناظر میں ہم پی ڈی ایم کی قیادت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ پھر سر جوڑ کر بھیٹ جائے اور موجودہ حالات کا ٹھنڈے دل سے دوبارہ جائزہ لے۔ آصف زرداری صاحب کی تجاویز کا جائزہ جذبات، ذاتی فوائد یا کسی ذاتی غم و غصے کی روشنی کے بجائے زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھا جائے ۔ تو مجھے امید ہے کہ وہ کسی بہتر فیصلہ پر پہنچ جائیں گے۔ ویسے اندر کی بات یہ بھی ہے کہ ان کے اپنے ممبران بھی استعفوں بارے خوش نہیں ہیں۔
دوسری طرف ہم حکومت سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اب ڈی چوک کلچر سے باہر نکلے اور این آر او اور چور چور، ڈاکو ڈاکو کا منترہ بند کرے۔ ڈھائی سال سے جو عوام خصوصاً پی ٹی آئی کی یوتھ کو پاگل بنایا ہوا ہے، وہ ختم کرے اور مسلمہ پارلیمانی روایات کے پیش منظر حزبِ اختلاف سے ایک آئینی ورکنگ رلیشن کو قائم کرے۔ تمام بڑے آئینی و عوامی معاملات میں حزبِ اختلاف کو انگیج کرے اور ان سے مل کر مؤثر قانونی سازی کرے ۔ جو حزبِ اختلاف کے کرپشن کے معاملات ہیں کو ان سے وابستہ اداروں مثلاً نیب، ایف آئی اے، پولیس، ایف بی آر، انکم ٹیکس وغیرہ تک ہی محدود رکھے بلکہ ان اداروں کو بھی یہ ہدایت کرے کہ وہ کام دیانت داری سے میرٹ پر کریں اور یہ تاثر پیدا نہ ہونے کی کوشش کریں کہ احتساب یک طرفہ طور پر ہو رہا ہے اور انتقامی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اب حکومت کو گڈ گورنس پر بھی زور دینا ہوگا۔ عوام جو مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔ ان کو کم سے کم سطح پر کچھ نہ کچھ ریلیف دینا ہوگا۔ کیوں کہ اگر کسی حکومت سے عوام سخت ناخوش ہوں، تو حزبِ اختلاف یا کسی بھی سازشی عنصر کی طرف سے ان کو چارہ بنانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔
پھر اس کے بعد عوام خود بخود اس قسم کی تحاریک میں جوق در جوق شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ آخر میں ہم اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ خود کو سیاسی گند سے دور رکھیں اور خود کو خواہ مخواہ غیر ضروری طور پر متنازعہ نہ بنائیں۔ ان کا احترام بنا کسی سیاسی تعصب کے قوم کا ہر فرد کرتا ہے اور ان کا حقیقی احترام ہی ملک و قوم واسطے سود مند ہے۔ اس کے ساتھ سیاست دانوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ بھی سیاسی مفادات واسطے اداروں کا نام لینا بند کریں اور یہ تاثر نہ پیدا ہونے دیں کہ ادارے کسی ایک مخصوص سیاسی دھڑے کے مخالف یا حمایتی ہیں۔
قارئینِ کرام! اسی میں ہم سب کی بقا اور ترقی ہے اور یہی اصولی و اخلاقی طریقۂ کار ہے۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔