’’بزرگوں سے سنا کرتے تھے: پتر! جب علاقے کے سارے چور اکٹھے ہو جائیں، تو سمجھ لینا کہ تھانے دار ایمان دار آ گیا ہے!‘‘
عرصہ پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ہمدمِ دیرینہ نے درجِ بالا سطور پوسٹ کی تھیں۔ مَیں نے جیسے ہی پڑھیں، اچھی لگیں اور ذہن کا حصہ بن گئیں۔ کیا پتا تھا کہ مذکورہ سطور آج ’’اختر ایوب‘‘ کے لیے کام آئیں گی۔
قارئینِ کرام! آج کل کچھ لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے تھانہ مینگورہ کے نئے ایس ایچ اُو اختر ایوب کی کردار کشی کی خاطر کچھ زیادہ ہی ’’اوور ایکٹنگ‘‘ کر رہے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ پچھلے دنوں وٹس ایپ کے ذریعے ایک سلجھے ہوئے دوست نے پیغام بھیجا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’مینگورہ شہر جرائم کا گڑھ بن چکا، پاک فوج کو چاہیے کہ تھانہ مینگورہ کا چارج سنبھالنے میں اور دیر نہ کرے۔‘‘
اس عجیب قسم کے مطالبہ پر دوسرے ہی لمحے اپنے اُس سلجھے ہوئے دوست (جو خیر سے انجینئر بھی ہیں) کو ایک لمبا پیغام ٹائپ کرکے بھیجا کہ اگر دانت میں درد ہو، تو کیا بندے کو ترکھان کے پاس جانا چاہیے؟ اگر سر میں درد ہو، تو کیا آہن گر کے پاس جانا چاہیے کہ وہ دو تین ہتھوڑے مار کر اسے دور فرمانے کی سعی کرے؟ اور آخر میں خوشحال خان خٹک کا یہ شعر بھی ٹائپ کرکے بھیجا کہ
شیخ دی مونز روژہ کڑی زہ بہ ڈکے پیالئی گرزم
ہر سڑے پیدا دے خپل خپل کار لرہ کنہ
انجینئر صاحب جواباً ’’ہاہاہا‘‘ ٹائپ کرکے پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
قارئین کرام! من حیث القوم یہ ہماری بدبختی ہے کہ ہم تصویر کا ایک رُخ دیکھتے ہیں۔ ہماری بدبختی کی رہی سہی کثر ہمارا کمزور حافظہ پورا کردیتی ہے۔ ابھی کل پرسوں کی بات ہے، جب اورنگ زیب عرفِ رنگے کو پکڑا گیا تھا۔ جی ہاں، وہی رنگے جو معصوم بچوں کو اِغوا کرکے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ اگر آپ بھول گئے ہوں، تو چلیں سینئر صحافی فیاض ظفر کی رپورٹ کا ایک اقتباس بطورِ نمونہ پیش کیے دیتے ہیں: ’’عدالت سے سزا پانے والے مجرم اورنگزیب عرفِ رنگے نے 300 سے زائد بچوں کو اِغوا کرکے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ اس عمل کے ثبوت رنگے کے ڈیرا سے ملنے والے موبائل فون میں مختلف ویڈیوز اور درجنوں عریاں اور قابلِ اعتراض تصاویر ہیں۔ پولیس نے جب رنگے کے موبائل کی گیلری کو چیک کیا، تو اس میں 300 سے زائد مختلف بچوں کی ویڈیوز اور تصاویر تھیں۔ رنگے جب بھی کسی بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا تھا، تو اُس وقت وہ مذکورہ معصوم بچوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی فون کے ذریعے بناتا تھا۔ موبائل میں موجود ویڈیوز اور تصاویر سے ثابت ہوا تھا کہ اس نے 300 سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔‘‘
جی کچھ یاد آیا؟ اگر یاد آگیا ہو، تو یہ بھی یاد کرلیں کہ رنگے جیسے درندہ صفت انسان پر ہاتھ کس نے ڈالا تھا؟ چلیے، یہ مَیں بتا دیتا ہوں کہ وہ کوئی اور نہیں یہی اختر ایوب تھا جس کی آج بلاوجہ کردار کشی کی جارہی ہے۔
رنگے کے ڈیرے پر جس روز چھاپا مارا گیا، اُس وقت اختر ایوب کے ساتھ دو تین سپاہی بھی تھے۔ انہیں میں سے ایک کو مَیں نے سنا تھا کہ اختر ایوب کو بھاری رقم کے عوض رنگے نے فرار ہونے کا کہا۔ اُس کے سامنے ہزار روپے کے نوٹوں کی کچھ گڈیاں بھی رکھیں، جسے اُس نے لات مار کر رنگے جیسے ناسور کو ڈیرے سے اُٹھا کر حوالات میں بند کرکے ہی دم لیا۔ آج وہی جوان سپاہی ’’دیدہ و نادیدہ طاقتوں‘‘ کے نشانے پر ہے۔
جاتے جاتے پیر و مرشد سے معافی کا خواست گار ہوں، جنہوں نے سختی سے تاکید کی ہے کہ کسی زندہ شخص پر قلم نہیں اٹھانا۔ مرشد فرماتے ہیں: ’’کیا پتا کل کو ممدوح کوئی ایسا کام کر جائے کہ مدح سرا کو اپنی مدح سرائی پر پچھتانا پڑے۔ ‘‘
مرشد! یہ بھی تو آپ ہی سے سیکھا ہے کہ
تیسری بات جھوٹ ہوتی ہے
عشق ہوتا ہے، یا نہیں ہوتا
صحیح، صحیح ہے چاہے اسے اکثریت غلط قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کیوں نہ کرے۔یوں غلط، غلط ہے چاہے اسے صحیح تسلیم کرانے ایک دنیا کیوں نہ کھڑی ہوجائے۔
مرشد، آپ ہی سیکھا ہے کہ صحیح اور غلط کے درمیان اختیار کیا جانے والا راستہ ’’منافقت‘‘ ہے۔ اختر ایوب مستقبل میں کوئی غلط کام کرے گا، تو اس پر سب سے پہلے اُٹھنے والا قلم میراہی ہوگا۔ ماضی میں اس کے اچھے کاموں کا مَیں بذاتِ خود گواہ ہوں۔ اس لیے کڑھتا ہوں کہ اس کے بیشتر کام کسی اور کے سینے پر میڈل سجنے کا ذریعہ بن گئے۔
مرشد، بڑے بڑے افسران، ڈی پی اُو، ڈی آئی جی حتی کہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کے حق میں کبھی ہمارا قلم نہیں اُٹھ سکا اور ایک چھوٹے سے تھانے کا ایس ایچ اُو دوسری بار ہماری ’’رگِ تحریر‘‘ پھڑکا گیا۔
مرشد، مولا بھلا کرے، آپ ہی نے تو سکھایا ہے کہ
وفا کا ذکر کریں گے، جفا کو پرکھیں گے
خموش رہ کے نہ گزرے گی زندگی ہم سے
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔